بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سسرال اگر سفرِ شرعی کی مسافت پر ہو تو داماد قصر کرے گا یا اتمام؟


سوال

کیا سسرال میں سفرِ شرعی کے بعد نماز قصر ہو گی یا پوری پڑھی جائے گی؟ یعنی اگر سسرال والے بقدرِ مسافتِ شرعی دور ہوں تو داماد وہاں  مکمل نماز پڑھے گا یا قصر کرے گا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر سسرال کا گھر داماد کے گھر سےسفرِ شرعی (48 میل یعنی سوا ستتر کلومیٹر) کی مسافت پر ہو اور داماد  کا وہاں پندرہ دن سے کم رہنے کی نیت  ہو تو  داماد اکیلے میں یا امام بن کر نماز پڑھانے کی صورت میں  قصر کرے گا اور اگر سسرال کا گھر سفرِشرعی کی مسافت  پر نہ ہو یاوہاں پندرہ یا اس سے زیادہ دن  ٹھہرنے کی نیت ہو تو ایسی صورت میں داماد پر اتمام (مکمل نماز ادا) کرنا ضروی ہے، نیز اگر داماد کے ساتھ   اپنی بیوی بھی ہو تو وہ بھی شوہر کے تابع ہوکر قصر کرے گی، البتہ اگر بیوی  کا شوہر کے بغیر اپنے میکے میں پندرہ دن سے زیادہ رہنے کا ارادہ ہو تو اس صورت میں اتمام کرے گی۔

المحیط البرہانی میں ہے:

"قال أصحابنا رحمهم الله: فرض المسافر في كل صلاة رباعية ركعتان .... حجة علمائنا رحمهم الله حديث عائشة رضي الله عنها: «فرضت الصلاة في الأصل ركعتين إلا المغرب، فإنها وتر ثم زيدت في الحضر وأقرت في السفر» وعن ابن عمررضي الله عنهما أنه قال: «صلاة المسافر ركعتان تمام غير قصر» يتكلم على لسان عليه السلام۔"

(کتاب الصلاۃ،‌‌الفصل الثاني والعشرون في صلاة السفر:ج،2:ص،21:ط،دار الکتب)

الدر المختار

"(الوطن الأصلي) هو موطن ولادته أو تأهله أو توطنه."

وفي الرد:

"(قوله : أو توطنه) أي عزم على القرار فيه وعدم الارتحال وإن لم يتأهل، فلو كان له أبوان ببلد غير مولده وهو بالغ ولم يتأهل به فليس ذلك وطنا له إلا إذا عزم على القرار فيه وترك الوطن الذي كان له قبله شرح المنية."

(كتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، مطلب في الوطن الأصلي، ج:2، ص:131، ط:سعيد)

فتاوى ہندیہ میں ہے:

"وكل من كان تبعا لغيره يلزمه طاعته يصير مقيما بإقامته ومسافرا بنيته وخروجه إلى السفر، كذا في محيط السرخسي .... ثم المرأة إنما تكون تبعا للزوج إذا أوفاها مهرها المعجل وأما إذا لم يوفها فلا تكون تبعا له قبل الدخول والجندي إنما يكون تبعا للأمير إذا كان يرزق من الأمير، كذا في التبيين."

(كتاب الصلاة، الباب الخامس عشر في صلاة المسافر، ج:1، ص:141، ط:رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101104

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں