بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 جمادى الاخرى 1446ھ 04 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

سوشل میڈیا پر اشاعتِ اسلام کے جواز کے دلائل اوران کا رد


سوال

میرےایک ساتھی کاتصویرکےمتعلق کچھ شبہات ہیں جن کاجواب درکارہے۔

1-ایک مفتی صاحب ہیں جوموجودہ زمانےمیں علماء کرام کاسوشل میڈیاپرآنااوراغیارپرردکرنےکو جہادکی حالت پرقیاس کرتےہیں کہ جیساجہادکی حالت میں مجاہد کوڈاڑھی منڈانےکی اجازت ہے، اسی طرح موجودہ زمانےمیں علماءکرام کومیڈیاپرآنےکی بھی اجازت ہے۔

2-دوسری دلیل موصوف یہ پیش کرتےہیں کہ موجودہ زمانےمیں علماءکرام کاسوشل میڈیاپرآناایساہےجیساکہ مجبوری کی حالت میں شراب پینا، یعنی  مجبوری کی حالت میں شراب پینےکی اجازت ہےتوموجودہ دورمیں علماء کرام کوسوشل میڈیاپرآنےکی بھی اجازت ہے۔

3-اس میں ابتلائےعام ہیں یعنی سب لوگ اس میں مبتلاہیں تواگرتمام علماءکرام اس کوحرام قراردیں توحرج لازم آئےگا۔

جواب

واضح رہےکہ جاندار اشیاء کی تصویر بنانا اور بنوانا دونوں حرام ہیں اور اس کی حرمت پر پوری امت کا اجماع ہے۔ چونکہ سوشل میڈیاکی تصویریعنی ڈیجیٹل تصویر،  اسی طرح وہ پروگرام جو کیمرہ کے ذریعہ محفوظ کرکے ویڈیو کی شکل میں چلائے جاتے ہیں یہ سب  تصویر کے حکم میں ہیں، اوراس پر تصوریرکےاحکام لاگو ہوتےہیں، اس لیےاس سےبھی اجتناب لازم ہے۔

جہاں تک بات ہےموصوف کے دلائل کا!سوان میں سےپہلی دلیل جوانہوں نےسوشل میڈیاپرآنےکی اجازت کوحالتِ جنگ میں ڈاڑھی منڈانےکی اجازت پرقیاس کیاہےتواس کاپہلاجواب یہ ہےکہ جس طرح عام حالات میں ڈاڑھی منڈاناحرام ہےاسی طرح حالتِ جنگ میں بھی ڈاڑھی منڈاناحرام ہے، لہذا یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ جہاد کی حالت میں مجاہد کو ڈاڑھی منڈانے کی اجازت ہے لہذا جب ڈاڑھی منڈانےکی اجازت حالتِ جنگ میں بھی نہیں ہےتوموصوف کی دلیل اور قیاس، قیاس مع الفارق ہے اور دوسراجوب اس دلیل کایہ ہےکہ قیاس کی شرائط میں سےایک شرط اصولیین یہ ذکرکرتےہیں کہ فرع کےاندرنص موجودنہ ہو، اگرفرع کےاندرنص پہلےسےموجودہوتوقیاس کرنابےکارہوگا، لہذایہاں پرچونکہ  سوشل میڈیاکی تصویریعنی ڈیجیٹل تصویرتصویرکےزمرےمیں داخل ہے، اورتصویرکےسلسلےمیں بہت سارے نصوص موجودہیں جس سےاس کی حرمت واضح ہے، لہذااس کوکسی اور چیزپرقیاس کرناہی غلط ہے۔رہی یہ بات کہ کفر نے اسلام کے خلاف سوشل میڈیا کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہےتو ہم اس کو اشاعت اسلام کے لئے استعمال کیوں نہ کریں؟ بلاشبہ بادی النظر میں یہ جذبہ درست ہے مگر اس امت کا یہ طرئہ امتیاز رہا ہے کہ اس نے اشاعت اسلام کے لئے کسی ناجائز کو ذریعہ نہیں بنایا، اگر اس کی اجازت ہوتی تو چوروں کی اصلاح کے لئے چوروں کے گروہ میں اور زانیوں کی اصلاح کے لئے زانیوں کے گروہ میں شامل ہونا،  بلکہ کافروں کی اصلاح کے لئے کافروں کے گروہ میں شامل ہونا جائز ہوتا، جب یہ جائزنہیں تو اشاعت اسلام کے لئے کسی ناجائز کو ذریعہ بنانابھی جائزنہیں۔

موصوف کی دوسری دلیل جوانہوں نےسوشل میڈیاپرآنےکی اجازت کومجبوری اورضرورت کےموقع پرشراب پینےکی اجازت پر قیاس کیاہےتواس کاپہلاجواب یہ ہےکہ کہ شراب پینےکی اجازت  صرف حالتِ اضطرارمیں ہے ،  اوروہ بھی دوشرطوں کےساتھ:۱-کھانےمیں طالبِ لذت نہ ہو۲- اورحدسےتجاوزکرنےوالانہ ہو۔زیرِ نظرصورت میں ایسی   حالتِ اضطرارتونہیں ہےجس کی وجہ سےسوشل میڈیااشاعتِ اسلام کی اجازت دی جائے،  نیزاگرواقعتًاضرورت بھی ہوتووہ ضرورت دیگرجائزذرائع مثلاً آڈیو بیانات اورتحریروں سےپوراکیاجاسکتاہے، لہذاموصوف کااشاعت اسلام کےلیےسوشل میڈیاپرآنےکی اجازت کومجبوری اورضرورت کےموقع پرشراب پینےکی اجازت پر قیاس کرنادرست نہیں۔

3-موصوف کی تیسری دلیل( ابتلائےعام )جس کووہ سوشل میڈیاپرآنےکی اجازت کےسلسلےمیں پیش کرتےہیں اس کاجواب یہ ہےکہ ابتلائےعام کی وجہ سےاُن مسائل کاحکم توبدل سکتاہےجس کامدارعرف پرہو، لیکن جومسائل منصوصی ہوں  جس  کےسلسلےمیں نص میں جوجودہواس کاحکم ابتلائےعام کی وجہ سےنہیں بدل سکتا، لہذا ابتلائےعام کی وجہ سےسوشل میڈیاپرآنےکی اجازت دینادرست نہیں۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن عائشة رضي الله عنها أن النبي صلى الله عليه وسلم لم يكن يترك في بيته شيئا فيه تصاليب إلا نقضه. رواه البخاري.

وعنها أنها اشترت نمرقة فيها تصاوير فلما رآها رسول الله صلى الله عليه وسلم قام على الباب فلم يدخل فعرفت في وجهه الكراهية قالت: فقلت: يا رسول الله أتوب إلى الله وإلى رسوله ما أذنبت؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما بال هذه النمرقة؟» قلت: اشتريتها لك لتقعد عليها وتوسدها فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن أصحاب هذه الصور يعذبون يوم القيامة ويقال لهم: أحيوا ما خلقتم ". وقال: «إن البيت الذي فيه الصورة لا تدخله الملائكة.

وعنها أنها كانت على سهوة لها سترا فيه تماثيل فهتكه النبي صلى الله عليه وسلم فاتخذت منه نمرقتين فكانتا في البيت يجلس عليهم.

وعنها أن النبي صلى الله عليه وسلم خرج في غزاة فأخذت نمطا فسترته على الباب فلما قدم فرأى النمط فجذبه حتى هتكه ثم قال: «إن الله لم يأمرنا أن نكسو الحجارة والطين.

وعنها عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «أشد الناس عذابا يوم القيامة الذين يضاهون بخلق الله.

(کتاب اللباس، باب التصاویر، الفصل الأول، 1273/2، ط:المكتب الإسلامي)

كشف الاسرارميں هے:

"قال الشيخ الإمام: وهي أربعة أوجه أن لا يكون الأصل مخصوصا بحكمه بنص آخروأن لا يكون حكمه معدولا به عن القياس، وأن يتعدى الحكم الشرعي الثابت بالنص بعينه إلى فرع هو نظيره ولا نص فيه ۔۔۔وأما الرابع فلما قلنا: إن القياس لا يعارض النص فلا يتغير به حكمه

قوله: (وأما الشرط الرابع) أي اشتراطه فلما قلنا أي في دليل الشرط الأول: إن القياس لا يعارض النص على وجه يدفع حكم النص ويغيره فلو لم يبق حكم النص بعد التعليل في المنصوص على ما كان قبله كان هذا قياسا مغيرا لحكم النص فيكون باطلا."

(باب شروط القياس، 301/3، ط:شركة الصحافة العثمانية)

شرح عقودرسم المفتی میں ہے:

"ثم اعلم أن كثيرا من الأحكام التي نص عليها المجتهد صاحب المذهب، بناء على ما كان في عرفه و زمانه قد تغيرت بتغير الأزمان بسبب فساد أهل الزمان، أو عموم الضرورة.........فهذا كله صريح فيما قلنا من العمل بالعرف ما لم يخالف الشريعة، كالمكس والربا ونحو ذلك."

(تغیرلاأحکام بتغیرالعرف، ص:76، ط:مکتبہ البشری)

الاشباہ والنظائرمیں ہے:

"وإنما العرف غير معتبر في المنصوص عليه."

(‌‌القاعدة السادسة: العادة محكمة، ص:80، ط:دار الکتب العلمیة)

احسن الفتاویٰ میں ہے:

"سوال:جب کوئی شخص جہادپرجائےتواس کےلیےڈاڑھی منڈواناجائزہےیانہیں ؟جہاد کے لئے جو راستہ ہے وہاں کفار ہیں، بغیر ڈاڑھی والے کو اندر چھوڑتے ہیں اور ڈاڑھی والے کو قتل کرتے ہیں۔

الجواب باسم ملهم الصواب: ڈاڑھی منڈانا حرام ہے ، جہاد کی ضرورت سے فعل حرام کا ارتکاب جائز نہیں، بلکہ ایسے موقع میں تو گناہوں سے بچنے اور استغفار کی زیادہ تاکید ہے ، قال الله تعالیٰ: وان تصبروا وتتقوا لا يضر كم كيد هم شيئًا ، وقال حكاية عن الربيين الذين كانوا يقاتلون مع نبيهم :ربنا اغفر لنا ذنوبنا واسر افنا فی امرنا و ثبت اقدامنا و انصرنا على القوم الکافرین، اس آیت کے مضمون کی ترتیب میں اس پر دلالت ہے کہ جس طرح نصرت ثبات اقدام پر موقوف ہے اسی طرح ثبات اقدام گناہوں سے تو بہ و استغفار پر موقوف ہے ، وقال رسول الله صلی الله عليه وسلم فانه لا يدرك ما عند الله الابطاعته."

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144604100231

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں