بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

سسر کا اپنی بہو سے زنا کرنے کی صورت میں حرمت مصاہرت اور مہر کا حکم


سوال

ساس نے اپنی بہو اور شوہر کو زنا کرتے دیکھا ہے، اس کے بعد دونوں نے اس گناہ کا اقرار بھی کیاہے، اور ساس کا کہنا کہ بہو کو مسلسل منع کرنےکے بعد بھی وہ اس گناہ کے ارتکاب سے باز نہ آئی ، جب کہ یہ معاملہ چار سال سے چل رہا تھا، اس کے بعد مجبوراً مجھے یہ معاملہ فاش کرنا پڑا، اب بہو کا کہنا ہے کہ  مجھے نشہ آور گولیاں کھلائی گئیں تھیں، جب کہ سسر کا کہنا ہے کہ گولیاں نہیں کھلائیں، بلکہ ہم دونوں کی رضامندی سے یہ سب کچھ ہوا اور اس واقعہ کی واحد گواہ ساس ہے اس  کا کہنا بھی یہی ہے کہ دونوں کی رضامندی سے یہ ہو ا ہے، نیز بہو کا شوہر چون کہ کام کے سلسلے میں ملک سے باہر تھا، اس لیے وہ کچھ نہیں کہہ سکتا۔

اب میرا سوال یہ ہے کہ:

1:اس صورت میں حرمت مصاہرت  ثابت ہوگئی ہے یا نہیں ؟

2: شرعاً دونوں مجرم ہیں یا صرف سسر مجرم ہے؟

3:لڑکی کے شوہر نے لڑکی کو نکاح کے وقت جو مہر دیاتھا وہ اب واپس شوہر کو ملے گا یا بیو ی کو؟

جواب

1: صورتِ مسئولہ میں  سسر اور بہو دونوں اس قبیح فعل کا اقرار  کررہے ہیں،لیکن اس پر شرعی گواہ موجود نہیں (اور اس جیسے معاملات میں صرف ایک عورت کی گواہی پر فیصلہ نہیں کیاجاسکتا) لہٰذا محض دونوں کے اقرار کی وجہ سے حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوگی، اور بہو اپنے شوہر پر حرام نہیں ہوگی، تاہم اگر بہو کے  شوہر کو ظن غالب ہو اور وہ ان دونوں کی بات کی تصدیق کرلے،  کہ واقعۃً اس کے باپ نے بدکاری کی ہے، تو ایسی صورت میں بہو اپنے شوہر پر ہمیشہ کے لئے حرام ہوجائے گی  اور اگر شوہر کو یقین نہیں ہے، اور وہ  اس بات کی تصدیق نہیں کرتا، کہ میرے باپ ایسا کر سکتے ہیں، تو ایسی صورت میں بہو اپنے شوہر پر  حرام نہیں ہوگی، لیکن اگر بہو کو یقینی طور پر معلوم ہو کہ اس کے سسر نے اس کے ساتھ زنا کی ہے تو ا س صورت میں بہو کو چاہیے کہ اپنے شوہر کو اپنے اوپر قدرتِ جماع نہ دے۔

2:اگر واقعۃً بہو کو نشہ آور گولیاں کھلائی گئی تھی، تو ایسی صورت میں صرف سسر مجرم ہوگا، کیوں کہ وہ خود اقرار کر رہاہے اور اس کوحد بھی لگے گی اور بہو پر ایسی صورت میں حد جاری نہیں ہوگی، کیوں کہ حدود شبہات کی وجہ سے ساقط ہوجاتی ہے اور اگر دونوں کی رضامندی سے   یہ  قبیح فعل  کیاگیا ہے، تو دونوں ہی مجرم ہوں گے۔

3:بوقتِ نکاح جو مہر بہو کو اس کے شوہر نے دیا تھا وہ بہو کا ہوگا، شوہر اس سے واپس لینے کاشرعاً  مطالبہ  نہیں کرسکتا۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"رجل قبل امرأة أبيه بشهوة أو قبل الأب امرأة ابنه بشهوة وهي مكرهة وأنكر الزوج أن يكون بشهوة فالقول قول الزوج، وإن ‌صدقه ‌الزوج وقعت الفرقة ويجب المهر على الزوج."

(کتاب النکاح، الفصل الثالث، القسم الثانی المحرمات باالصهرية، ج:1، ص:276، ط:رشيدية)

البحر الرائق میں ہے:

"وفي فتح القدير وثبوت الحرمة بلمسها مشروط بأن يصدقها ويقع في أكبر رأيه صدقها وعلى هذا ينبغي أن يقال في مسه إياها لا تحرم على أبيه وابنه إلا أن يصدقها أو يغلب على ‌ظنه ‌صدقها ثم رأيت عن أبي يوسف ما يفيد ذلك اهـ."

(کتاب النکاح، فصل فی المحرمات فی النکاح، ج:3، ص:107، ط:دار الکتاب)

بنایہ شرح ہدایہ  میں ہے:

"ومن الديانات: (الحل والحرمة إذا لم يكن فيه زوال الملك) : يعني يقبل في الحل والحرمة خبر الواحد إذا لم يكن فيه زوال الملك كما إذا قال: هذا الطعام أو هذا الشراب حلال أو حرام، فإذا تضمن زوال الملك لا يقبل إلا بشهادة رجلين أو رجل وامرأتين، كما إذا أخبر امرأة أو رجل عدل أن الزوجين ارتضعا من امرأة واحدة لا تثبت الحرمة؛ لأن ثبوتها زوال ملك المتعة، فيشترط العدد والعدالة جميعا، فإذا كان كذلك فلا يجب التفريق ولا يقبل خبرها."

(کتاب الکراهیة، الاخبار بنجاسة الماء، ج:12، ص:79، ط:دار الکتب)

بدائع الصنائع ميں ہے:

‌"والمهر ‌يتأكد بأحد معان ثلاثة: الدخول، والخلوة الصحيحة، وموت أحد الزوجين سواء كان مسمى أو مهر المثل حتى لا يسقط منه شيء بعد ذلك إلا بالإبراءمن صاحب الحق، كذا في البدائع۔"

(كتاب النكاح، الباب السابع في المهر،الفصل الثاني فيما يتأكد به المهر، ج:1، ص:303، ط:سعيد)

امداد الفتاویٰ میں ہے:

"سوال (۱۱۶۶) : قدیم  ۲/۳۲۰ -  (۱) زید نے بکر کی بیوی ہندہ سے زنا یا لوازمات زنا کیا ہندہ مقر ہے اور زید منکر ہے اور گواہ ہندہ کا کوئی نہیں ہے اس صورت میں کس کا قول معتبر ہے آیاہندہ مقر کا یا زید منکر کا؟

(۲) ہندہ زید کے لڑکے کے نکاح سے بدون لفظ طلاق نکاح سے باہر ہو سکتی ہے یا یہ فعل باعث طلاق ہوگیا؟  اور بدون حاصل کئے طلاق نکاح ثانی کر سکتی ہے یا نہیں ؟

الجواب:(۱)ہندہ مدعی حرمت ہے جس سے حق بکر کا زائل ہوتا ہے اس لئے صرف دعویٰ کافی نہیں اور ہندہ کا قول معتبر نہ ہوگا۔ نظیرہ مافي الدرالمختار: وإن ادعت الشھوۃ في تقبیلہ أو تقبیلھا ابنہ و أنکر ھا الرجل فھو مصدق۔ الخ وفي رد المحتار:  أي ادعت الزوجۃ أنہ قبل أحد أصولھا أوفروعھا بشھوۃ أو أن أحد أصولھا أو فروعھا قبلہ بشھوۃ الخ قولہ فھو مصدق؛ لأنہ ینکر ثبوت الحرمۃ والقول للمنکر۔

البتہ اگر شوہر بھی ہندہ کی تصدیق کرے تو حکم حرمت کا کیا جائے گیا۔ نظیرہ مافي الدر المختار عن الخلاصۃ: قیل لہ مافعلت بأم امرأتک فقال جامعتھا تثبت الحرمۃ ولا یصدق أنہ کذب ولوھا زلاً۔ 

اور جس صورت میں ہندہ کی تصدیق نہ کی جاوے لیکن ہندہ واقع میں سچی ہو تو ہندہ کو چاہئے کہ جہاں تک قدرت ہو شوہر کو جماع سے باز رکھے اور جب مجبور ہوجاوے تو خیر یہ تفصیل زنا کے دعویٰ میں ہے اورلوازم زنا میں اور بھی تفصیل ہے اُس لازم کی تعیین کرکے سوال کرنا چاہئیے۔ 

(۲) في الدر المختار: وبحرمۃ المصاہرۃ لا یرتفع النکاح حتیٰ لایحل لھا التزوج باٰخر إلا بعد المتارکۃ وانقضاء العدۃ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس فعل سے نکاح نہیں ٹوٹا اور طلاق نہیں ہوئی بدون طلاق کے نکاح ثانی جائز نہیں۔ "

(کتاب النکاح، باب المحرمات، ج: 2، ص: 339، ط: مکتبہ دارالعلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100231

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں