بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سورۃ فاتحہ اور اخلاص مٹی پر پڑھ کر اس مٹی کو میت کے نیچے رکھنا بدعت ہے


سوال

 بعض لوگ خاص کر نقشبندی لوگ  جب میت کا جنازہ ہو جائے تو جنازے کے بعد لوگ بیٹھتے ہیں اور کچھ بندے اس میت کی قبر سے جو مٹی نکلی ہے اس مٹی سے تھو ڑا اٹھا کے بیٹھے لوگوں  میں تقسیم کرتے ہیں اور لوگ اس مٹی پر سورۃ  فاتحہ اور سورۃ اخلاص پڑھ کے واپس دیتےہیں، پھر وہ مٹی قبر میں میت کے نیچے ڈالتے ہیں اور دوسری بات جنازے کے بعد لوگوں میں روپے تقسیم کرتے ہیں صدقہ کے طور پر اور کہتے ہیں کہ ان دو عمل سے میت سے جو غلطی ہوئی ہو یا نماز قضا  ہو ئی ہو پوری ہوتی ہیں، کیا یہ طریقہ اسلام میں جائز ہے؟ 

جواب

صورتِ  مسئولہ میں مٹی پر  سورۃ فاتحہ اور سورۃ اخلاص پڑھ کر وہ مٹی  قبر میں میت کے نیچے ڈالنے کا ثبوت قرآن و حدیث میں نہیں ہے ،ایسا کرنا  بدعت اور ارتکاب مکروہ ہے ، لہذا اس سے اجنتاب ضروری ہے ،البتہ سورۃ فاتحہ اور اخلاص پڑھ کر  میت کو اس کا ایصال ثواب کرنا  میت کے لیے باعث دفع  عذاب اور رفع درجات ہے۔نیز اگر کسی عاقل بالغ کے ذمہ کچھ نمازیں  باقی ہوں اور اسی حالت میں اس کی وفات ہو جائے تو اس کے لیے فقہاء نے احتیاطاً  فدیہ تجویز کیا ہے ۔ہر نماز کا فدیہ  نصف صاع گندم ہے ،اور وتر کے لیے مستقل نصف صاع ہے یعنی ایک دن کی نمازوں کا فدیہ گندم کے حساب سے چھ صاع ہوا ،کلو کے حساب سے ایک نماز کا پونے دو کلو گندم  اور چھ نمازوں کا ساڑے دس کلو گندم  ہوگا ۔فدیہ کے علاوہ محض کچھ صدقہ کرنے سے یہ سمجھنا کہ قضا نمازوں کا کفارہ ہو گیا  یا تمام  گناہوں کا کفارہ  ہو گیا  تو یہ  مسئلہ سے ناواقفیت اور غلط فہمی کا نتیجہ ہے،پس اگر میت اپنی قضاشدہ نمازوں کے بارے میں فدیہ کی  وصیت کر جائے تو ثلث مال تک اس کی وصیت کو پورا کرنا  ضروری ہے ،اگرمیت نے نہیں کی  اور  اگر کوئی وارث بطور تبرع فدیہ دے دے تو بھی جائز ہے ۔

اگر صدقہ کرنے سے مراد حیلہ اسقاط ہے تو اس کی مروجہ صورتیں  بہت سے مفاسد اور محظوراتِ شرعیہ  پر مشتمل ہونے کی وجہ سے خلاف شریعت ہیں اور واجب الترک ہیں۔

 احسن الفتاوی  میں ہے :

"شامی یا دیگر فقہاء نے جو اجازت دی ہے اس میں تصریح ہے کہ یہ حیلہ اس وقت جائز ہے جب کہ ثلث سے فدیہ ادا نہ ہو سکتا ہو اور یہ صورت کبھی اتفاقاً پیش آجاتی ہے، اسے مستقل رسم بنا لینے کی اجازت نہیں ،نیز یہ بھی ضروری ہے کہ اس حیلہ سے عوام کا عقیدہ فاسد نہ ہو ،اس وقت جو  اسقاط مروج ہے اس میں اولاً تو تملیک فقراء اس طرح کی جاتی ہے کہ اس سے تملیک متحقق نہیں ہوتی ،ثانیاً اس سے فساد عقیدہ لازم آتا ہے کہ عوام گناہوں پر دلیر ہو جاتے ہیں اور صوم  و صلاۃ کی کوئی پرواہ نہیں کرتے،ثالثاً اس کا ایسا التزام کیا جاتا ہے کہ اسے بھی اعمال تکفین میں سے ایک مستقل عمل سمجھا جاتا ہے،التزام  کرنے سے مباح بلکہ مندوب کام بھی ناجائز ہو جاتا ہےکما صرح بہ فی الشامیۃ و غیرہا،رابعاًثلث مال سے فدیہ ادا نہیں کیا جاتا ،حالاں کہ اتمام  ثلث تک فدیہ کی وصیت کرنا اور اس کا ادا کرنا لازمی ہے ،اتمام ثلث کے بعد بھی فدیہ باقی رہے تو اس حالت میں فقہاء نے حیلہ کی اجازت دی تھی مگر فی زماننا فساد عقیدہ کی وجہ سے یہ بھی جائز نہیں ہے۔"

(باب رد البدعات،ج:1،ص:350،ط:دار الاشاعت)

کفایت المفتی میں ہے:

"(سوال )  قبر  میں میت کے ساتھ پانچ یا سات ڈھیلوں پر سورہ اخلاص ختم کرکے ڈالنا کیسا ہے ؟ 

(جواب) ڈھیلوں پر سورہ اخلاص پڑھ کر دم کرکے قبر میں رکھنا مکروہ ہے ۔ "

(کتاب الجنائز ،ج:4،ص:47،ط:دار الاشاعت)

اصول السرخسی میں ہے:

"فإن قيل: فقد جعلتم الفدية مشروعة مكان الصلاة بالقياس على الصوم و لو كان ذلك غير معقول المعنى لم يجز تعدية حكمه إلى الصلاة بالرأي قلنا: لانعدي ذلك الحكم إلى الصلاة بالرأي ولكن يحتمل أن يكون فيه معنى معقول وإن كنا لا نقف عليه والصلاة نظير الصوم في القوة أو أهم منه ويحتمل أنه ليس فيه معنى معقول فإن ما لانقف عليه لايكون علينا العمل به فلاحتمال الوجه الأول يفدي مكان الصلاة و لاحتمال الوجه الثاني لايجب الفداء و إن فدى لم يكن به بأس فأمرناه بذلك احتياطًا؛ لأن التصدق بالطعام لاينفكّ عن معنى القربة و قال عليه السلام: أتبع السيئة الحسنة تمحها و لهذا لانقول في الفدية عن الصلاة: إنها جائزة قطعًا و لكنا نرجو القبول من الله فضلًا، و قال محمد في الزيادات: يجزيه ذلك إن شاء الله وكذلك قال في أداء الوارث عن المورث بغير أمره في الصوم يجزيه إن شاء الله تعالى و على هذا الأصل حكم الأضحية فالتقرب بإراقة الدم عرف بنص غير معقول المعنى فيفوت بمضي الوقت لأن مثله غير مشروع قربة للعبد في غير ذلك الوقت."

(فصل في بیان حکم الواجب بالامر،ج:1،ص:51،ط:دار المعرفہ)

اصول البزدوی میں ہے :

"فإن قيل: فإذا ثبت هذا بنص غير معقول فلم أوجبتم الفدية في الصلاة بلا نص قياسا على الصوم من غير تعليل؟ قلنا؛ لأن ما ثبت من حكم الفدية عن الصوم يحتمل أن يكون معلولا والصلاة نظير الصوم بل أهم منه لكنا لم نعقل واحتمل أن لا يكون معلولا وما لا ندركه لا يلزمنا العمل به لكنه لما احتمل الوجهين أمرناه بالفدية احتياطا فلئن كان مشروعًا فقد تأدى و إلا فليس به بأس ثم لم نحكم بجوازه مثل ما حكمنا به في الصوم؛ لأنا حكمنا به في الصوم قطعًا و رجونا القبول من الله تعالى في الصلاة فضلا.وقال محمد - رحمه الله - في الزيادات في هذا يجزيه إن شاء الله كما إذا تطوع به الوارث في الصوم۔"

(کشف الاسرار، باب الامر:1،ص:154،ط:دار الکتاب الاسلامی)

فتاوی شامی میں ہے:

"ثم اعلم أنه إذا أوصى بفدية الصوم يحكم بالجواز قطعا لأنه منصوص عليه. وأما إذا لم يوص فتطوع بها الوارث فقد قال محمد في الزيادات إنه ‌يجزيه ‌إن ‌شاء ‌الله تعالى، فعلق الإجزاء بالمشيئة لعدم النص، وكذا علقه بالمشيئة فيما إذا أوصى بفدية الصلاة لأنهم ألحقوها بالصوم احتياطا لاحتمال كون النص فيه معلولا بالعجز فتشمل العلة الصلاة وإن لم يكن معلولًا تكون الفدية برا مبتدأ يصلح ماحيا للسيئات فكان فيها شبهة كما إذا لم يوص بفدية الصوم فلذا جزم محمد بالأول ولم يجزم بالأخيرين، فعلم أنه إذا لم يوص بفدية الصلاة فالشبهة أقوى."

(کتاب الصلوۃ ،باب قضاء الفوائت،ج:2،ص:72،ط:سعید)

رد المحتار میں ہے:

"‌ولو ‌لم ‌يترك ‌مالا يستقرض وارثه نصف صاع مثلا ويدفعه لفقير ثم يدفعه الفقير للوارث ثم وثم حتى يتم وفي الرد (قوله: ‌ولو ‌لم ‌يترك ‌مالا إلخ) أي أصلا أو كان ما أوصى به لا يفي. زاد في الإمداد: أو لم يوص بشيء وأراد الولي التبرع إلخ وأشار بالتبرع إلى أن ذلك ليس بواجب على الولي ونص عليه في تبيين المحارم فقال: لا يجب على الولي فعل الدور وإن أوصى به الميت لأنها وصية بالتبرع، والواجب على الميت أن يوصي بما يفي بما عليه إن لم يضق الثلث عنه، فإن أوصى بأقل وأمر بالدور وترك بقية الثلث للورثة أو تبرع به لغيرهم فقد أثم بترك ما وجب عليه. اهـ وبه ظهر حال وصايا أهل زماننا، فإن الواحد منهم يكون في ذمته صلوات كثيرة وغيرها من زكاة وأضاح وأيمان ويوصي لذلك بدراهم يسيرة، ويجعل معظم وصيته لقراءة الختمات والتهاليل التي نص علماؤنا على عدم صحة الوصية بها، وأن القراءة لشيء من الدنيا لا تجوز، وأن الآخذ والمعطي آثمان لأن ذلك يشبه الاستئجار على القراءة، ونفس الاستئجار عليها لا يجوز، فكذا ما أشبهه كما صرح بذلك في عدة كتب من مشاهير كتب المذهب؛ وإنما أفتى المتأخرون بجواز الاستئجار على تعليم القرآن لا على التلاوة وعللوه بالضرورة وهي خوف ضياع القرآن، ولا ضرورة في جواز الاستئجار على التلاوة كما أوضحت ذلك في شفاء العليل وسيأتي بعض ذلك في باب الإجارة الفاسدة إن شاء الله تعالى.(قوله: يستقرض وارثه نصف صاع مثلا إلخ) أي أو قيمة ذلك. والأقرب أن يحسب ما على الميت ويستقرض بقدره، بأن يقدر عن كل شهر أو سنة أو يحتسب مدة عمره بعد إسقاط اثنتي عشرة سنة للذكر وتسع سنين للأنثى لأنها أقل مدة بلوغهما، فيجب عن كل شهر نصف غرارة قمح بالمد الدمشقي مد زماننا لأن نصف الصاع أقل من ربع مد، فتبلغ كفارة ست صلوات لكل يوم وليلة نحو مد وثلث، ولكل شهر أربعون مدا وذلك نصف غرارة، ولكل سنة شمسية ست غرائر، فيستقرض قيمتها ويدفعها للفقير ثم يستوهبها منه ويتسلمها منه لتتم الهبة ثم يدفعها لذلك الفقير أو لفقير آخر وهكذا، فيسقط في كل مرة كفارة سنة، وإن استقرض أكثر من ذلك يسقط بقدره وبعد ذلك يعيد الدور لكفارة الصيام ثم للأضحية ثم للأيمان، لكن لا بدّ في كفارة الأيمان من عشرة مساكين، و لايصحّ أن يدفع للواحد أكثر من نصف صاع في يوم للنص على العدد فيها، بخلاف فدية الصلاة فإنه يجوز إعطاءفدية صلوات لواحد كما يأتي."

(کتاب الصلوۃ، باب قضاء الفوائت، ج:2، ص:74، ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إذا مات الرجل وعليه صلوات فائتة فأوصى بأن تعطى كفارة صلواته يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر و للوتر نصف صاع و لصوم يوم نصف صاع من ثلث ماله."

(کتاب الصلاۃ ،باب قضاء الفوائت ،ج:1،ص:125،ط:رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100197

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں