بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1446ھ 03 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

سورۃ الکہف میں حضرت خضر علیہ السلام کا ارادے کے بارے میں مختلف نسبتیں ذکر کرنے کی وجوہات


سوال

سورۃ الکہف میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کے واقعہ میں جو تین کام حضرت خضر علیہ السلام نے  کئے، اس میں انہوں نے ”میں نے چاہا، ہم نے چاہا، تیرے رب نے چاہا“ جیسے الفاظ استعمال کرنے کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی، کیوں کہ ذکر کردہ تینوں کام تو خود انہوں نے کئے، اس کے باوجود اس طرح کے الفاظ استعمال کیے۔ برائے مہربانی اس کی وضاحت فرمادیں۔

جواب

مذکورہ واقعہ میں ذکر کردہ تینوں افعال (یعنی احسان کے باوجود مسکینوں کی کشتی توڑنا، بلاوجہ لڑکے کو قتل کرنا، بستی والوں کا مہمان نوازی سے انکار کرنے کے باوجود بلامعاوضہ دیوار سیدھی کرنا) اگرچہ حضرت خضر علیہ السلام نے (یہ کام) امرِ خداوندی سے ہی کئے تھے، تاہم ان میں سے بعض کاموں کا بظاہر فعلِ شر اور بعض کا فعلِ خیر پر مشتمل ہونے کی وجہ سے پیغمبرانہ بلاغت اور رعایتِ ادب کی خاطر ان میں سے جو فعل شر پر مبنی تھا اس میں ارادے کی نسبت اپنی ذات کی طرف کی، اور جو سراسر خیر تھا اسے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا، اور جو شر اور خیر دونوں  میں مشترک تھا اسے اپنی ذات اور اللہ تعالیٰ (دونوں) کی طرف منسوب کیا، تاکہ اس میں شر کی نسبت اپنی طرف اور خیر کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو۔

چنانچہ حضرت مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ ”معارف القرآن“ میں ان آیات کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ:

”خلاصہ یہ ہے کہ جو آفت یا حادثہ دنیا میں پیش آتا ہے خدا تعالیٰ کی مشیت و ارادے کے بغیر نہیں ہوسکتا، اس لحاظ سے ہر خیر و شر کی نسبت بھی حق تعالیٰ کی طرف ہوسکتی ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ حق تعالیٰ کی تخلیق کے اعتبار سے کوئی شر شر نہیں ہوتا، اس لیے ادب کا تقاضا یہ ہے کہ شر کی نسبت حق تعالیٰ کی طرف نہ کی جائے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے کلمات جو قرآن کریم میں مذکور ہیں "وَالَّذِي هُوَ يُطْعِمُنِي وَيَسْقِينِ وَإِذا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ"   اسی تعلیم کا سبق دیتے ہیں کہ کھلانے پلانے کی نسبت حق تعالیٰ کی طرف فرمائی، پھر بیماری کے وقت شفاء دینے کی نسبت بھی اسی کی طرف کی۔ درمیان میں بیمار ہونے کو اپنی طرف منسوب کرکے کہا "وَإِذا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ" یعنی جب میں بیمار ہوجاتا ہوں تو اللہ تعالیٰ مجھے شفاء عطا فرما دیتے ہیں، یوں نہیں کہا کہ جب وہ مجھے بیمار کرتے ہیں تو شفاء بھی دیتے ہیں۔

اب حضرت خضر علیہ السلام کے کلام پر غور کیجیے، انہوں نے جب کشتی توڑنے کا ارادہ کیا تو وہ کیونکہ ظاہر میں ایک عیب اور برائی ہے، اس کے ارادہ کی نسبت اپنی طرف کرکے فرمایا "اَرَدْتُّ"، پھر لڑکے کو قتل کرنے اور اس کے بدلے میں اس سے بہتر اولاد دینے کا ذکر کیا تو اس میں قتل تو برائی تھی اور بدلہ میں بہتر اولاد دینا ایک بھلائی تھی امر مشترک ہونے کی وجہ سے یہاں بصیغہ جمع متکلم فرمایا "فَاَرَدْنَا"یعنی ہم نے ارادہ کیا، تاکہ اس میں جتنا ظاہری شر ہے وہ اپنی طرف اور جو خیر ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہو، تیسرے واقعہ میں دیوار کھڑی کرکے یتیموں کا مال محفوظ کر دینا سراسر خیر ہی خیر ہے، اس کی نسبت پوری حق تعالیٰ کی طرف کرکے فرمایا "فَاَرَادَ رَبُّكَ" یعنی آپ کے رب نے ارادہ کیا۔“

(سورۃ الکہف، ج:5، ص:622، ط:دار العلوم کراچی)

اسی طرح قاضی بیضاوی علیہ الرحمۃ اپنی معرکۃ الآراء کتاب ”تفسیرِ بیضاوی“ میں لکھتے ہیں کہ

"ولعل إسناد الإِرادة أولاً إلى نفسه لأنه المباشر للتعييب، وثانياً إلى الله وإلى نفسه لأن التبديل بإهلاك الغلام وإيجاد الله بدله، وثالثاً إلى الله وحده لأنه لا مدخل له في بلوغ الغلامين. أو لأن الأول في نفسه شر، والثالث خير، والثاني ممتزج. أو لاختلاف حال العارف في الالتفات إلى الوسائط. وَما فَعَلْتُهُ وما فعلت ما رأيته. عَنْ أَمْرِي عن رأيي وإنما فعلته بأمر الله عز وجل."

(سورة الكهف، ج:3، ص:291، ط:دار إحياء التراث العربي بيروت)

یعنی کہ حضرت خضر نے کشتی کو عیب دار بنانے کے ارادے کی نسبت صرف اپنی ذات کی طرف کی، کیونکہ عیب دار بنانا انہی کا فعل تھا، (اپنے فعل کا ارادہ خود انہوں نے ہی کیا تھا)، اس کے بعد ”اردنا“ کہنے میں اپنے ساتھ اللہ تعالیٰ کو بھی فاعلِ ارادہ قرار دیا، کیونکہ ہلاک یعنی قتل کرنا حضرت خضر کا فعل تھا، قتل کے فاعل وہ خود تھے اور مقتول لڑکے کی جگہ دوسری اولاد کو پیدا کرنا اللہ تعالیٰ ہی کا کام تھا، (اور اللہ کے کام کا ارادہ اللہ کے سوا کون کرسکتا ہے؟ اسی لیے) تیسری جگہ ارادہ کی نسبت صرف اللہ کی طرف کی، کیونکہ یتیم لڑکوں کے بالغ اور جوان ہونے میں اللہ کے ارادہ کے علاوہ کسی اور کا دخل ہی نہیں ہوسکتا تھا۔
یا یوں کہا جائے کہ کشتی توڑنا فی نفسہٖ شر ہے (اگر اس میں خیر تھی تو اضافی تھی کہ ظالم و جابر بادشاہ کے چھین لینے سے ان مسکینوں کی کشتی محفوظ رہے) اس لیے اپنی ذات کی طرف نسبت کی، اور تیسرا فعل سراسر خیر ہے، اس لیے اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی، اور دوسرے فعل میں شر اور خیر مخلوط تھی، اس لیے اپنے ساتھ اللہ کی طرف بھی نسبت کی۔

یا یوں کہا جائے کہ اسباب و وسائط کی طرف توجہ کرنے میں عارف کا حال مختلف ہوتا ہے، یعنی کبھی خالص وسائط کی طرف توجہ ہوتی ہے، کبھی وسائط سے بالکل منہ موڑ لیتا ہے، کبھی مخلوط التفات ہوتا ہے۔

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144604102010

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں