بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سورۃ توبہ کے شروع میں بسملہ کا حکم


سوال

سورہ براة ( توبہ )کے شروع میں بسملہ کا حکم بتا دیں؟

جواب

واضح رہے کہ سورۃ توبہ کے شروع میں بسملہ نہ ہونے سے متعلق علماء کرام کے  مختلف اقوال ہیں،  جن میں راجح اور مشہور قول یہ ہے کہ:

 حضور  ﷺ کی عادتِ مبارکہ یہ تھی کہ جب بھی کوئی آیت نازل ہوتی تو آپ  ﷺ کاتبینِ وحی صحابہ کو بلاکر اس آیت کو جس جگہ جس سورت میں لکھنا ہوتا تھا،  بتلا کر اس آیت کو لکھوا لیتے،  لیکن یہ آیتیں جنہیں سورۂ توبہ کے نام سے جانا جاتا ہے، ان کے متعلق حضور  ﷺ نے کچھ ارشاد نہیں فرمایا کہ انہیں کس سورت میں کس جگہ پر لکھنا ہے؟  اس لیے ایسا سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ بھی ایک مستقل سورت ہوگی، تاہم سورۂ  انفال کی آخری اور سورۂ توبہ کی ابتدائی آیات کے مضامین میں مناسبت پائی جاتی ہے، دونوں سورتوں میں مناسبت  کی وجہ سے سورۂ  توبہ کو سورۂ  انفال کے بعد رکھا گیا،    دوسری طرف جب ایک سورت کو دوسر ی سورت سے علیحدہ کرنا ہوتا تو بیچ میں ’’بسم اللہ‘‘  لکھی جاتی تھی؛  تاکہ یہ معلوم ہو کہ دونوں سورتیں الگ الگ ہیں، سورۂ توبہ کے شروع میں ’’بسم اللہ‘‘  نہیں لکھوائی گئی؛  تاکہ ما قبل  والی سورت کے ساتھ اس کا تعلق ہونا سمجھ میں آئے، اور چوں کہ یہ بات واضح نہیں تھی کہ سورۂ توبہ الگ سورہ ہے یا سورۂ انفال ہی کا جز ہے،  اس لیے  دونوں پہلوؤں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے صحابہؓ کے زمانہ میں جب حضرت عثمان ؓ نے قرآن کو جمع کروایا تو اس کے شروع میں ’’بسم اللہ‘‘  نہیں لکھی گئی، اور اگلی سورت سے اس کو الگ بتایا گیا؛ تاکہ دونوں سورتوں کو ایک ہی نہ سمجھ لیا جائے۔

اسی بنا  پر حضرات فقہاء نے یہ حکم بیان  فرمایا ہے کہ جو شخص  سورہ انفال سے تلاوت کرتا آیا ہو اور  آگے سورہ توبہ شروع کر رہا ہو وہ ’’﷽‘‘  نہ پڑھے،  لیکن جو شخص اسی سورت کے شروع یا درمیان سے اپنی تلاوت شروع کر رہا ہےاس کو  چاہیے کہ {بسم اللہ الرحمن الرحیم}  پڑھ کر شروع کرے۔

بعض لوگوں کے ہاں جو  یہ بات مشہور ہے  کہ سورہ توبہ کے شروع میں کسی حال میں ’’بسم اللہ‘‘  پڑھنا جائز نہیں، یہ غلط ہے۔ 

تفسير القرطبي (8/ 61):

"واختلف العلماء في سبب سقوط البسملة من أول هذه السورة على أقوال خمسة: الأول: أنه قيل: كان من شأن العرب في زمانها في الجاهلية إذا كان بينهم وبين قوم عهد فإذا أرادوا نقضه كتبوا إليهم كتاباً ولم يكتبوا فيه بسملةً فلما نزلت سورة براءة بنقض العهد الذي كان بين النبي صلى الله عليه وسلم والمشركين بعث بها النبي صلى الله عليه وسلم علي ابن أبي طالب رضي الله عنه فقرأها عليهم في الموسم ولم يبسمل في ذلك على ما جرت به عاد تهم في نقض العهد من ترك البسملة.

وقول ثان: روى النسائي قال: حدثنا أحمد قال: حدثنا محمد بن المثنى عن يحيى بن سعيد قال: حدثنا عوف قال: حدثنا يزيد الرقاشي  قال: قال لنا ابن عباس: قلت لعثمان: ما حملكم إلى أن عمدتم إلى [الأنفال] وهي من المثاني وإلى" براءة" وهي من المئين فقرنتم بينهما ولم تكتبوا سطر بسم الله الرحمن الرحيم ووضعتموها في السبع الطول ، فما حملكم على ذلك؟ قال عثمان: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا نزل عليه الشيء يدعو بعض من يكتب عنده فيقول: (ضعوا هذا في السورة التي فيها كذا وكذا) . وتنزل عليه الآيات فيقول: (ضعوا هذه الآيات في السورة التي يذكر فيها كذا وكذا) . وكانت" الأنفال" من أوائل ما أنزل ، و" براءة" من آخر القرآن، وكانت قصتها شبيهة بقصتها وقبض رسول الله صلى الله عليه وسلم ولم يبين لنا أنها منها فظننت أنها منها فمن ثم قرنت بينهما ولم أكتب بينهما سطر بسم الله الرحمن الرحيم. وخرجه أبو عيسى الترمذي وقال: هذا حديث حسن". 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505101564

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں