بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حاملہ خواتین اور ان کے حمل پر سورج اور چاند گرہن کے اثرات


سوال

 سورج گرہن کے وقت عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ حاملہ عورتوں کے بچوں کو نقصان ہوتا ہے، اگر سمجھاؤ تو کہتے ہیں کہ بچے ایسے کیوں پیدا ہوتے ہیں ؟ پھر ان کو اسلام کی صحیح تعلیمات سے  کیسے مطمئن کیا جائے ؟

جواب

لوگوں کو یہ بات سمجھانی چاہیے کہ سورج اور چاند گرہن اللہ تعالی کی قدرت  کی نشانیاں ہیں،  ان نشانیوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جو قادرِ مطلق اللہ تعالی سورج سے روشنی دیتا ہے اور چاند سے چاندنی دیتا ہے  وہی اللہ تعالی ان کو ماند  کردینے پر بھی قادر ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں آپ ﷺ کے صاحب زادے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کے انتقال  کے بعد  سورج گرہن ہوگیا، اس زمانے میں لوگوں کا خیال یہ تھا کہ سورج گرہن کسی بڑے آدمی کی وفات  یا پیدائش کی وجہ سے ہوتا ہے، جیسا کہ ابھی آپ ﷺ کے بیٹے کی وفات پر ہوا تو آپﷺ نے اس عقیدے کی نفی فرمائی۔

"بخاری شریف " میں ہے:

" حضرت ابوبردہ، حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ سورج گرہن ہوا تو نبی ﷺ اس طرح گھبرائے ہوئے کھڑے ہوئے جیسے قیامت گئی، آپ ﷺ مسجد میں آئے اور طویل ترین قیام و رکوع اور سجود کے ساتھ نماز پڑھی کہ اس سے پہلے آپ ﷺ کو ایسا کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ نشانیاں ہیں جو اللہ بزرگ و برتر بھیجتا ہے، یہ کسی کی موت اور حیات کے سبب سے نہیں ہوتا ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے، جب تم اس کو دیکھو تو ذکرِ الٰہی اور دعا واستغفار کی طرف دوڑو“ ۔

لہذا چاند گرہن  اور سورج گرہن کے وقت  ہمیں تعلیماتِ نبویہ علی صاحبہا الصلوات والتسلیمات  کے مطابق  اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہو کر  نماز، دعا اور استغفار میں مشغول ہونا چاہیے۔

باقی چاند گرہن اور سورج گرہن کی وجہ سے عام انسانوں یا حاملہ خواتین اور ان کے حمل پر مختلف قسم کے اثرات پڑنے سے متعلق جو باتیں عوام میں مشہور ہیں ان کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے،  اس لیے سورج یا چاند گرہن کے وقت ایسی باتوں کی طرف دھیان دینے کے بجائے نماز اور استغفار و دعا کی طرف توجہ دینی چاہیے۔

باقی طبی اعتبار سے معلومات کے لیے کسی اچھے  طبیب یا ڈاکٹر وغیرہ سے پوچھ  لیجیے۔

صحيح البخاري (2/ 39):

"حدثنا محمد بن العلاء، قال: حدثنا أبو أسامة، عن بريد بن عبد الله، عن أبي بردة، عن أبي موسى، قال: خسفت الشمس، فقام النبي صلى الله عليه وسلم فزعاً، يخشى أن تكون الساعة، فأتى المسجد، فصلى بأطول قيام وركوع وسجود مارأيته قط يفعله، وقال: «هذه الآيات التي يرسل الله، لا تكون لموت أحد ولا لحياته، ولكن يخوف الله به عباده، فإذا رأيتم شيئاً من ذلك، فافزعوا إلى ذكره ودعائه واستغفاره»". 

صحيح البخاري (2/ 39):

" حدثنا أبو الوليد، قال: حدثنا زائدة، قال: حدثنا زياد بن علاقة، قال: سمعت المغيرة بن شعبة، يقول: انكسفت الشمس يوم مات إبراهيم، فقال الناس: انكسفت لموت إبراهيم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله، لاينكسفان لموت أحد ولا لحياته، فإذا رأيتموهما، فادعوا الله وصلوا حتى ينجلي»". 

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (7/ 88):

" أنه صلى الله عليه وسلم جعل ما سيقع كالواقع إظهاراً لتعظيم شأن الكسوف وتنبيهاً لأمته أنه إذا وقع بعده يخشون أمر ذلك ويفزعون إلى ذكر الله والصلاة والصدقة، لأن ذلك مما يدفع الله به البلاء".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210200572

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں