بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سورہ فاتحہ کی آیت میں شک ہونا


سوال

نماز میں بندہ کو سورہ فاتحہ میں شک یا وسوسہ ہوا کہ "ایاک" کو زبر کے ساتھ پڑھا یا تشدید کے ساتھ پڑھا اور بندہ درست کرکے اسے نہ پڑھے، شک اور وسوسہ کی طرف دھیان ہی نہ دے؟  اس کے بارے میں یہ بھی وسوسہ رہا کہ ایسا پڑھنے سے کفر لاحق ہوتا ہے تو کیا ایسا کرنے سے کفر لاحق ہوگا ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب سائل کو شک ہے کہ اس نے "ایّاک" کی یاء کو تشدید کے ساتھ نہیں پڑھا، بلکہ" اِیَاک"  نرم یا ء اور صرف زبر کے ساتھ ادا کیا ہے،اور سائل نے اس بات کو شک اور وسوسہ سمجھ کر دھیان نہیں دیا ، اور درست کر کے نہیں پڑھا؛ تو صرف شک  سے سائل کی نماز پر کوئی فرق نہیں پڑا، اور نماز ہو گئی ، لہذا دہرانے کی ضرورت نہیں؛ البتہ اگر ایسا شک پہلی دفعہ ہوا، یا بہت دنوں بعد کبھی کبھار ہوتا ہے، تو مناسب یہی ہے کہ موقع پر ہی آیت کو دہرا کر درست کر لیا جائے؛ لیکن بار بار ایسا شک  ہو کہ جس کی کوئی معقول وجہ بھی نہ ہو، تو اس سے کفر لازم نہیں ہوگا، اس کو وسوسہ سمجھ کر جھٹک دینا چاہیے اور اس پر توجہ نہیں دینی چاہیے۔

نیز جب نماز میں ہی اندازہ ہوجائے کہ قراءت میں ایسا لفظ واقعی غلط پڑھ لیا ہے، جس سے معنی بالکل غلط یا کفریہ ہو گیا ہے، اور اس سے آگے تین چھوٹی آیتوں سے کم تلاوت کی ہو؛ تو  پیچھے سے پڑھ کر  غلطی درست کرکے بقیہ اگلی تلاوت دہرا لے، نماز ہو جائے گی اور سجدۂ سہو بھی لازم نہیں ہوگا؛ لیکن اگر ایسی غلطی کرنے کے بعد تین آیتوں سے زیادہ پڑھ چکا ہو اور  نمازی ابھی  اسی رکعت میں ہو، تو غلطی درست کرکے بقیہ قراءت بھی دہرا لے، پھر آخر میں سجدۂ سہو کر لے۔ البتہ اگر ایسی غلطی کا علم رکعت پوری کرنے کے  بعد ہوا، یا نماز  ختم ہونے کے بعد معلوم ہوا؛ تو چوں کہ ایسی غلطی سے معنی بدل گیا ہے، اس لیے نماز فاسد ہوگئی، اب اعادہ (نماز دہرانا) لازم ہوگا۔

علاوہ  ازیں، "إیاک" کو بغیر تشدید کے دانستہ پڑھنے سےاس وقت کفر لازم آتا  ہے، جب پڑھنے والے کا اس غلط معنی پر یقین ہو،  لا علمی میں یا بغیر ارادے کے اس طرح پڑھنے سے کفر لازم نہیں آتا؛ لہذا صرف مذکورہ آیت  (یا اس جیسے دوسرے الفاظ) کو غلط پڑھنے کے وسوسے سے کفر لاحق نہیں ہوگا، اسی طرح بغیر نیت کے نادانستہ طور پر غلط پڑھ لینے سے بھی کفر لازم نہیں آئے گا۔

فتاوی خانیہ میں ہے:

"و إن غیر المعنی تغیراً فاحشاً فإن قرأ: ”و عصی آدم ربه فغوی“ بنصب میم ” اٰدم “ ورفع باء ” ربه “ … و ما أشبه ذلك لو تعمد به یکفر، وإذا قرأ خطأً فسدت صلاته..." الخ

(الفتاوی الخانیة علی هامش الهندیة،کتاب الصلاة، فصل في قراءة القرآن خطأ..، 139/1، ط: رشيديه كويته)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ومنها: ذکر کلمة مکان کلمة علی وجه البدل إن کانت الکلمة التي قرأها مکان کلمة یقرب معناها وهي في القرآن لاتفسد صلاته، نحو إن قرأ مکان العلیم الحکیم …، وإن کان في القرآن، ولکن لاتتقاربان في المعنی نحو إن قرأ: "وعداً علینا إنا کنا غافلین" مکان {فاعلین} ونحوه مما لو اعتقده یکفر تفسد عند عامة مشایخنا،وهو الصحیح من مذهب أبي یوسف رحمه الله تعالی، هکذا في الخلاصة".

(كتاب الصلاة، الباب الرابع في صفة الصلاة، الفصل الخامس في زلة القارئ، 80/1، ط: رشيديه كويته)

و فيه أيضاً:

"(ومنها ترك التشديد والمد في موضعهما) لو ترك التشديد في قوله إياك نعبد وإياك نستعين أو قرأ الحمد لله رب العالمين وأسقط التشديد على الباء. المختار أنها لا تفسد وكذا في جميع المواضع وإن كان قول عامة المشايخ أنها تفسد...

[حتى قال في آخر الفصل:]... ذکر في الفوائد: لو قرأ في الصلاة بخطإ فاحش ثم رجع وقرأ صحیحاً ، قال: عندي صلاته جائزة".

(كتاب الصلاة، الباب الرابع في صفة الصلاة، الفصل الخامس في زلة القارئ، 82/1ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الفتح: عامة المشايخ على أن ترك المد والتشديد كالخطإ في الإعراب فلذا قال كثير بالفساد في تخفيف - {رب العالمين} [الفاتحة: 2]- و - {‌إياك نعبد} [الفاتحة: 5]- لأن إيا مخففا الشمس والأصح لا يفسد، وهو لغة قليلة في إيا المشددة، وعلى قول المتأخرين لا يحتاج إلى هذا"۔

(كتاب الصلاة، باب مايفسد الصلاة و مايكره فيها، بعيد فروع مشي المصلي، مطلب في زلة القارى، 631/1، ط: سعید)

البنایہ شرح الہدایہ میں ہے:

"ولو‌ترك ‌التشديد... من "‌إياك ‌نعبد" فإن تعمد ذلك وعرف معناه يكفر، وإن كان ساهيا أو جاهلا يسجد للسهو، كذا في تتمتهم. وعند عامة مشايخنا لو ‌ترك ‌التشديد من إياك ومن رب العالمين يعيد، والمختار أنه لا يعيد صلاته، ذكره في 'الخلاصة '."

(کتاب الصلاۃ، سنن الصلاۃ، الواجب من القراءۃ فی الصلاۃ، 209/2، ط: دار الكتب العلمية بيروت)

حاشیۃ الطحطاوی  علی الدر المختار میں ہے:

"وفي المضمرات: قرأ في الصلاة بخطإ فاحش ثم أعاد وقرأ صحیحاً فصلاته جائزة".

(حاشیة الطحطاوي علی الدر المختار،268/1، ط: مکتبة الاتحاد دیوبند)

المحیط البرہانی میں ہے:

" وإن كان اختلافاً متباعداً، نحو أن يختم آية الرحمة بآية العذاب أو آية العذاب بآية الرحمة أو أراد أن يقرأ {الشَّيْطَنُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ} (البقرة: 268) يجري على لسانه الرحمن يعدكم الفقر؛ فعلى قول أبي حنيفة ومحمد تفسد صلاته."

(کتاب الصلاة، الفصل الرابع في كيفيتها، فرع في زلّة القارئ،323/1، ط: دار الكتب العلمية، بيروت)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن القاسم بن محمد: أن رجلا سأله فقال: إني أهم في صلاتي فيكبر ذلك علي فقال له: امض في صلاتك، فإنه لن يذهب ذلك عنك حتى تنصرف، وأنت تقول: ما أتممت صلاتي. رواه مالك"

[قال العلي القارئ:] فقال له: امض في صلاتك) : سواء كانت الوسوسة خارج الصلاة، أو داخلها، ولا تلتفت إلى موانعها."

(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، باب في الوسوسة، 134/1، ط: دار الفكر، بيروت)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144410100847

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں