بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سورۂ فاتحہ کے بعد تعوذ پڑھنا


سوال

 اگر نمازِ تراویح میں فاتحہ کے بعد سورت شروع کرنے سے پہلے کوئی تعوّذ پڑھ لے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ اس پر سجدہ سہو آ تا ہے کہ نہیں؟ اگر آ تا ہے اور سجدہ سہو نہیں کیا اور سلام پھیر دیا تو کیا نماز واجب الاعادہ ہوگی یا نہیں ؟ 

جواب

نماز میں سورت فاتحہ کے بعد سورت ملانے سے پہلے صرف تسمیہ ( بسم اللہ الرحمٰن الرحیم)  پڑھنا مستحب ہے ،  تعوذ ( اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم)  کامحل ابتداۓ تلاوت ہے ، لیکن اگر کوئی شخص سورۂ فاتحہ کے بعد سورت ملانے سے پہلے تعوذ پڑھ لے تو سجدہ سہو واجب نہیں ہوگا، اور اگر کسی نے تعوّذ پڑھ لیا اور سجدہ سہو نہیں کیا تو نماز ادا ہوجاۓ گی ، واجب الاعادہ نہیں ہوگی۔

فتاوى عالمگيری میں ہے:

"ولا يجب السجود إلا بترك واجب أو تأخيره أو تأخير ركن أو تقديمه أو تكراره أو تغيير واجب بأن يجهر فيما يخافت وفي الحقيقة وجوبه بشيء واحد وهو ترك الواجب، كذا في الكافي.

ولا يجب بترك التعوذ والبسملة في الأولى والثناء."

 (كتاب الصلاة، الباب الثاني عشر في سجود السهو، ج: 1، ص: 126، ط: دار الفكر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"لو قال " بسم الله الرحمن الرحيم " فهو حسن وفي ابتداء الفاتحة في كل ركعة. قيل وهو قول الأكثر، لكن الأصح أنها سنة، وتسن أيضا في ابتداء الوضوء والأكل، وفي ابتداء كل أمر ذي بال، وتجوز أو تستحب فيما ‌بين ‌الفاتحة ‌والسورة"

(مقدمة الشامی، ج: 1، ص: 9، ط: سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144411100704

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں