بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سورہ بقرہ کی آیت نمبر 273 کے مصداق کون ہیں؟


سوال

للفقراء الذين احصروا فى سبيل الله لا يستطيعون ... الآیة

اس آیت کے مصداق کون لوگ ہیں؟ کیا موجودہ دور کے ائمہ مساجد و  مؤذنین بھی اس آیت کے تحت  آتے ہیں، جن کی حالت ہمارے معاشرے میں بہت خراب ہے؟

جواب

مذکورہ آیت کے اَوّلِین مصداق اَصحابِ صُفّہ رضوان اللہ علیہم اجمعین و تنگ دست صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں، ان کے بعد  وہ تمام لوگ ہیں جو دینی مشغولیت کی وجہ سے دوسرا کوئی کام نہیں کرسکتے، پس موجودہ دور کے وہ ائمۂ مساجد اور  موؤذنین بھی اس آیت کے مصداق ہیں جو  مستحق ہونے کے باوجود  سفید پوشی کے ساتھ  زندگی گزارتے ہیں، اور کسی کے سامنے دستِ سوال دراز نہیں کرتے۔

معارف القرآن میں ہے:

"لِلْفُقَرَآءِ الَّذِيۡنَ اُحْصِرُوْا فِىْ سَبِيْلِ اللّٰهِ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ ضَرْبًا فِى الْاَرْضِ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ اَغْنِيَآءَ مِنَ التَّعَفُّفِ‌ تَعْرِفُهُمْ بِسِيْمٰهُمْ لَا يَسْــئَلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَــافًا وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَيْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِيْمٌ  ".

(سورۃ البقرة آیت نمبر 273 )

ترجمہ: خیرات اُن فقیروں کے لیے ہے جو  رُکے ہوئے ہیں اللہ کی راہ  میں،  چل پھر نہیں سکتے ملک میں، سمجھے ان کو ناواقف مال دار  ان کے سوال نہ کرنے سے، تو پہچانتا ہے ان کو ان کے چہرے سے، نہیں سوال کرتے لوگوں سے لپٹ کر، اور جو کچھ کرچ کرو گے کام کی چیز وہ  بے شک اللہ کو معلوم ہے۔

تفسیر: {لِلْفُقَرَاۗءِ الَّذِيْنَ اُحْصِرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ   ...فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِيْمٌ }یہاں فقراء سے  مراد  وہ تمام لوگ ہیں جو دینی مشغولیت کی وجہ سے دوسرا کوئی کام نہیں کرسکتے۔

{يَحْسَبُھُمُ الْجَاهِلُ اَغْنِيَاۗءَ مِنَ التَّعَفُّفِ} اس آیت سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی فقیر قیمتی کپڑے پہنے ہوئے ہو تو اس کی وجہ سے اس کو غنی نہیں کہا جائے گا، بلکہ فقیر ہی کہا جائے گا اور ایسے آدمی کو زکوٰۃ دینا بھی صحیح ہوگا(قرطبی)

{تَعْرِفُھُمْ بِسِيْمٰھُمْ} سے معلوم ہوا کہ علامات کو دیکھ کر حکم لگانا صحیح ہے، چناں چہ اگر کوئی مردہ اس قسم کا پایا جائے کہ اس پر زنا رہے اور اس کا ختنہ بھی نہیں کیا ہوا ہو تو اس کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہیں کیا جائے گا۔ (قرطبی)

{لاَ يَسْــَٔـلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا} اس آیت سے بظاہر یہ مفہوم ہوتا ہے کہ وہ لپٹ کر نہیں مانگتے،  لیکن بغیر لپٹ کر مانگنے کی نفی نہیں ہے، چناچہ بعض حضرات کا یہی قول ہے، لیکن جمہور کے نزدیک اس کے معنی یہ  ہیں کہ وہ سوال بالکل ہی نہیں کرتے،لأنهم متعففون عن المسألة عفة تامة.(قرطبی )."

(معارف القرآن ، جلد 1، ص: 643)

تفسیر القرطبی میں ہے:

"الأولى: قوله تعالى : ( للفقراء ) اللام متعلقة بقوله وما تنفقوا من خير وقيل : بمحذوف تقديره الإنفاق أو الصدقة للفقراء . قال السدي ومجاهد وغيرهما : المراد بهؤلاء الفقراء فقراء المهاجرين من قريش وغيرهم ، ثم تتناول الآية كل من دخل تحت صفة الفقراء غابر الدهر ..... الثانية : قوله تعالى : يحسبهم الجاهل أغنياء من التعفف أي إنهم من الانقباض وترك المسألة والتوكل على الله بحيث يظنهم الجاهل بهم أغنياء . وفيه دليل على أن اسم الفقر يجوز أن يطلق على من له كسوة ذات قيمة ولا يمنع ذلك من إعطاء الزكاة إليه". (البقرة، 273)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108200810

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں