بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سورج یا چاند گرہن کے دوران دعا قبول ہونے کی حقیقت


سوال

سورج یا چاند گرہن کے دوران دعا کرنا اور اس دعا کے  قبول ہونے کی کیا حقیقت ہے؟

جواب

سورج اور چاند گرہن  اللہ تعالی کی قدرت کی نشانیاں ہیں، یہ ظاہر کرنے کے لیے جو قادرِ مطلق اللہ تعالی سورج سے روشنی دیتا ہے اور چاند سے چاندنی دیتا ہے  وہی اللہ تعالی ان کو ماند  کردینے پر بھی قادر ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں آپ ﷺ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کے انتقال  کے بعد  سورج گرہن ہوگیا، اس زمانے میں لوگوں کا خیال یہ تھا کہ سورج گرہن کسی بڑے آدمی کی وفات  یا پیدائش کی وجہ سے ہوتا ہے، جیسا کہ ابھی آپ ﷺ کے بیٹے کی وفات پر ہوا تو آپﷺ نے اس عقیدے کی نفی فرمائی۔

"بخاری شریف " میں ہے:

" حضرت ابوبردہ، حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ سورج گرہن ہوا تو نبی ﷺ اس طرح گھبرائے ہوئے کھڑے ہوئے جیسے قیامت گئی، آپ ﷺ مسجد میں آئے اور طویل ترین قیام و رکوع اور سجود کے ساتھ نماز پڑھی کہ اس سے پہلے آپ ﷺ کو ایسا کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ نشانیاں ہیں جو اللہ بزرگ و برتر بھیجتا ہے، یہ کسی کی موت اور حیات کے سبب سے نہیں ہوتا ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے، جب تم اس کو دیکھو تو ذکرِ الٰہی اور دعا واستغفار کی طرف دوڑو"۔

لہذا چاند گرہن  اور سورج گرہن کے وقت  ہمیں تعلیماتِ نبویہ علی صاحبہا الصلوات والتسلیمات  کے مطابق  اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہو کر  نماز، دعا اور استغفار میں مشغول ہونا چاہیے، باقی احادیث میں دعا کی قبولیت کے جو اوقات بیان کیے گئے ہیں، ان میں سورج اور چاند گرہن کے اوقات کا ذکر نہیں ملتا۔

''حدثنا محمد بن العلاء، قال: حدثنا أبو أسامة، عن بريد بن عبد الله، عن أبي بردة، عن أبي موسى، قال: خسفت الشمس، فقام النبي صلى الله عليه وسلم فزعاً، يخشى أن تكون الساعة، فأتى المسجد، فصلى بأطول قيام وركوع وسجود مارأيته قط يفعله، وقال: «هذه الآيات التي يرسل الله، لا تكون لموت أحد ولا لحياته، ولكن يخوف الله به عباده، فإذا رأيتم شيئاً من ذلك، فافزعوا إلى ذكره ودعائه واستغفاره»''.

(صحيح البخاري، کتاب الصلوۃ ،ج: 2، ص: 39، ط: السلطانیة)

الدعاء للطبراني میں ہے:

"انكسفت الشمس على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم توفي إبراهيم ابن رسول الله فقال الناس: إنما انكسفت لموت إبراهيم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله لا ينكسفان لموت أحد ولا لحياته، فإذا رأيتم ذلك فافزعوا إلى ذكر الله وإلى الصلاة»."

(كتاب الصلوة ، باب كسوف الشمس، ص: 608، ط: العلمية)

سنن أبي داود میں ہے: 

"ثم جلس كما هو مستقبل القبلة يدعو حتى انجلى كسوفها."

(کتاب الصلوۃ ،ج: 1،ص: 308 ، ط: المکتبة العصرية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501100259

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں