بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جمعہ کی رات میں سورۂ زلزال اور سورۂ دخان پڑھنے کی فضیلت


سوال

شب جمعہ میں دو رکعت نماز اس طرح پڑھنا کہ سورۂ  فاتحہ کے بعد 15 بار سورہ زلزال پڑھی جائے، تو اس شخص پر موت کی سختی نہ ہوگی، عذاب قبر نہ ہوگا اور پل صراط پر سے آسانی سے گزر جائے گا،  کیا ایسی کوئی روایت ہے؟ اگر ہے تو اس کی سند کی حیثیت کیا ہے؟

جواب

کافی تلاش کے باوجود سوال میں مذکورہ روایت احادیث   کی صحیح اور  معتمد  کتابوں میں نہیں ملی، تاہم   امام  ترمذی رحمہ اللہ نے سورۂ(إذا زلزلت)کی فضیلت میں  حضرت انس رضی للہ عنہ سے ایک روایت نقل کی ہے کہ :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا :"إذا زلزلت نصف قرآن کے برابر ہے"،البتہ  نقل کرنے کےبعد لکھا ہے کہ : "یہ حدیث غریب ہے"، اسی طرح امام بیہقی رحمہ اللہ مذکورہ روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: "هذا العجلي مجهول" اس کی سند میں"  حسن عجلی"  نامی شخص مجہول ہے اور علامہ مزی وغیرہ کی بھی یہی رائےہے۔

اس کے علاوہ جمعہ کی رات میں سورۂ دخان پڑھنے کی فضیلت حدیث میں وارد ہوئی ہے، یہ حدیث  امام ترمذی رحمہ اللہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کی ہے،وہ فرماتے ہیں کہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" جو شخص جمعہ کی رات سورۂ دخان پڑھے گا اس کی مغفرت کی جائے گی" لیکن اس حدیث کو بھی علماء جرح وتعدیل نے ہشام ابو مقدام کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے، تاہم یہ روایت فضائل کے باب میں بیان کی جاسکتی ہے۔

وفي سنن الترمذي:

"‌ عن الحسن بن سلم بن صالح العجلي ، قال: حدثنا ‌ثابت البناني ، عن ‌أنس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قرأ إذا زلزلت عدلت له بنصف القرآن»، ومن قرأ {قل يا أيها الكافرون} ‌عدلت ‌له ‌بربع ‌القرآن، ومن قرأ {قل هو الله أحد} عدلت له بثلث القرآن"، هذا حديث غريب لا نعرفه إلا من حديث هذا الشيخ الحسن بن سلم."

[أبواب فضائل القرآن ، ج:5، ص:19، ط:دار الغرب الإسلامي.]

وفي شعب الإيمان:

"هذا العجلي مجهول."

[فصل في فضائل السور، ج:2، ص:497، ط:دار الكتب العلمية]

وفي تهذيب الكمال:

"الحسن بن سلم بن صالح العجلي البصري، ويقال: الحسن بن سيار بن صالح، ويقال: حسن بن صالح، ينسب إلى جده، ويقال: غير ذلك وهو شيخ مجهول له حديث واحد، عن ثابت، عن أنس..."

[ الحسن بن سلم، ج:6، ص:166، ط:مؤسسة الرسالة]

وفي سنن الترمذي:

" عن الحسن، عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قرأ حم الدخان في ليلة الجمعة غفر له»: «هذا حديث لا نعرفه إلا من هذا الوجه ‌وهشام ‌أبو ‌المقدام يضعف، ولم يسمع الحسن من أبي هريرة، هكذا قال أيوب ويونس بن عبيد وعلي بن زيد»."

[أبواب فضائل القرآن، ج:5، ص:16، ط:دار الغرب الإسلامي]

وفي قبول الأخبار ومعرفة الرجال:

" ‌وهشام ‌أبو ‌المقدام ،ليس بثقة، وهو هشام بن زياد ."

[ج:2، ص:344، ط:دار الكتب العلمية]

وفي كتاب"الجرح والتعديل" لابن أبي حاتم الرازي:

"نا عبد الرحمن نا العباس بن محمد الدوري قال سمعت يحيى بن معين يقول ‌هشام ‌أبو ‌المقدام ليس بثقة.

نا عبد الرحمن أنا عبد الله بن أحمد بن حنبل فيما كتب إلى قال سألت ابى عن هشام بن أبي هشام وهو هشام بن زياد أبو المقدام، فقال: ضعيف الحديث.ناعبد الرحمن قال سألت أبي عن ابى المقدام هشام بن زياد فقال: ليس بالقوي ضعيف...نا عبد الرحمن قال سئل أبو زرعة عن هشام ابى المقدام فقال ضعيف."

[باب الهاء، ج:9، ص:58، ط:دار إحياء التراث العربي]

وقال في "النکت علی مقدمة ابن صلاح":

"أن الضعيف لا يحتج به في العقائد والأحكام ويجوز روايته والعمل به في غير ذلك كالقصص وفضائل الأعمال والترغيب والترهيب ونقل ذلك عن ابن مهدي وأحمد بن حنبل وروى البيهقي في المدخل عن عبد الرحمن ابن مهدي أنه قال إذا روينا عن النبي صلى الله عليه وسلم في الحلال والحرام والأحكام شددنا في الأسانيد وانتقدنا في الرجال وإذا روينا في فضائل الأعمال والثواب والعقاب سهلنا في الأسانيد وتسامحنا في الرجال."

[النوع الثاني والعشرون، ج:2، ص:308، ط:أضواء السلف، الرياض]

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144403100599

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں