بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سورۂ یٰسین اور سورۂ رحمٰن کے وظیفے کو خاص تعداد میں پڑھنے اور سوالاکھ کے ختم کی شرعی حیثیت


سوال

ہمارے علاقے میں لوگ مختلف سورتوں کا ختم کرتے ہیں مثلاً سورۂ یاسین یا سورۃ الرحمن وغیرہ تو اس کےلئے انہوں نے ایک خاص تعداد رکھی ہوتی ہے،مثلاً سورۂ یاسین کیلئے ٣٩ مرتبہ، سورۃ الرحمن کیلئے ٤١ مرتبہ وغیرہ کیا اس کی اس تعداد پورا کرنا ضروری ہے؟ یا تعداد سے زیادہ پڑھنے سے وظیفے پر کوئی اثر تو نہیں پڑھے گا؟ سوا لاکھ مرتبہ ختم کے بارے میں شریعت کیا کہتی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ کسی جائز مقصد کے لیے جو ختم وغیرہ کیا جاتا ہے وہ بطورِ علاج کے ہوتا ہے،اس کامن کل وجہ قرآن یا حدیث سے ثابت ہونا ضروری نہیں ہے،صرف اتنا کافی ہے کہ وہ قرآن و حدیث کے معارض نہ ہو،نیز وظیفہ کو خاص تعداد میں پڑھنا بدعت نہیں ہےبلکہ یہ بعض وظائف میں حدیث سے اور بعض میں بزرگوں کے تجربہ سے ثابت ہے، ہر وظیفہ کی تعداد کا قرآن و حدیث سے صراحۃً ثابت ہوناضروری نہیں۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر کوئی اپنے جائز مقصد کے لیے اجتماعی یا انفرادی طور پر سورۂ یٰس یا سورۂ رحمٰن کا ایک مخصوص تعداد میں ختم کرائے تو یہ جائز ہے،ایسے ہی سوالاکھ کاختم بھی جائز ہے،بشرط یہ کہ اس کو لازم یا قرآن و حدیث سے ثابت سمجھتے ہوئے نہ کیا جائے نہ ہی مذکورہ تعداد پوری نہ کرنے والے پر کوئی نکیر کی جائے،تاہم  جب کوئی وظیفہ ایک معین تعداد میں پڑھنا بزرگوں کے تجربہ سے ثابت شدہ ہو تو اس کو اسی مجرب طریقہ سے پڑھنےمیں قبولیت کی اور مقصد میں کامیابی کی زیادہ امید ہے۔

"سنن الترمذي"میں ہے:

"قال النبي صلى الله عليه وسلم: إن لكل شيء قلبا، وقلب القرآن يس، ومن قرأ يس كتب الله له بقراءتها قراءة القرآن عشر مرات."

(ص:١٦٢،ج:٥،أبواب فضائل القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلمکتاب،باب ما جاء فی فضل یس،ط:البابي الحلبي)

"سنن ابن ماجة"میں ہے:

"عن أبي سعيد الخدري قال: بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاثين راكبا في سرية، فنزلنا بقوم، فسألناهم أن يقرونا، فأبوا، فلدغ سيدهم؛ فأتونا، فقالوا: أفيكم أحد يرقي من العقرب؟ فقلت: نعم، أنا، ولكن لا أرقيه حتى تعطونا غنما، قالوا: فإنا نعطيكم ثلاثين شاة فقبلنا، فقرأت عليه الحمد سبع مرات؛ فبرئ، وقبضنا الغنم، فعرض في أنفسنا منها شيء، فقلنا: لا تعجلوا حتى نأتي النبي صلى الله عليه وسلم، فلما قدمنا ذكرت له الذي صنعت، فقال: "أو ما علمت أنها رقية، اقتسموها، واضربوا لي معكم سهما."

(ص:٤٦٤،أول أبواب التجارات،باب أجر الراقي،ط:دار الصديق للنشر)

"إعلاء السنن"میں ہے:

"وقد أجمع العلماء علي ان ليس بعد تلاوة اللقرآن عبادة تؤدى باللسان أفضل من ذكر الله تعالى،ورفع الحاجات بالأدعية الخاصة إليه سبحانه ،ولا يخفى أن اتباع المأثور عن النبي صلى الله عليه وسلم وأصحابه أفضل و أولى،وإن كان ذكر الله يجوز بكل لسان ولغة بكل صفة و هيئة،كما هو ظاهر،وبهذا اندحض إيراد بعض الناس على الصوفية بأنهم اخترعوا أذكارا من عندأنفسهم لا أصل لها في السنة ...فالأذكار اللتي اخترعها المشائخ وإن لم تكن مأثورة فإنها مقدمات لقبول القلب وصلاحه للذكر المأثور.... ثم اعلم أن غاية التصوف حصول القرب والرضا من الله في الآخرة وحصول بشاشة الإيمان ومخالطتهما بالقلب في الدنيا."

(ص:٤٦٢،ج:١٨،كتاب  الأدب والتصوف ولإحسان،باب الذكر والدعاء،ط:إدارة القرآن)

’’فتاویٰ محمودیہ ‘‘میں ہے:

سوال:’’بہت سی عورتیں اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے اور پریشانیوں کو دور کرنے کے لیے یٰسین شریف ٤١/٧١ بار پڑھ کر اس کا ثواب حضور ﷺ کو اور سب کو پہونچا کر اپنے واسطے دعا کرلیتی ہیں یہ طریقہ بھی جائز ہے یا نہیں؟‘‘

جواب:۔۔۔’’سورۂ یٰسین شریف کو٤١/٧١ دفعہ پڑھ کر دعا کرنے کا عمل اگر تجربہ سے مفید ثابت ہو اور اس سے مصائب دور ہوجاتے ہوں تو یہ درست ہے۔‘‘

(ص:٧٣،ج:٣،باب البدعات والرسوم)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501101394

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں