بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سونے کی خرید وفروخت میں کچھ رقم نقد دینا اور کچھ رقم ادھار کے طور پر رکھنے کا حکم


سوال

سونے کی خرید وفروخت میں اگر کچھ پیسے نقد ادا کیے جائیں اور باقی ماندہ ادھار کر لیے جائیں تو کیا یہ جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ جس طرح سونے اور چاندی کا آپس میں تبادلہ کو "بیع صرف"  کہلاتا ہے،اسی طرح سونے اور چاندی کا تبادلہ عام کرنسی(ثمن عرفی یعنی حکومت کی طرف سے مقرر کردہ کرنسی نوٹ)سے بھی بیع صرف کہلاتا ہے، اور بیع صرف میں چوں کہ دونوں ثمن کا آپس میں قبضہ ضروری ہے؛ لہٰذا سونے/ چاندی اور کرنسی نوٹوں کے تبادلہ میں بھی قبضہ ضروری ہے، حاصل یہ ہے کہ سونے/ چاندی کو نوٹوں کے بدلے بیع صرف ہونے کی وجہ سے ادھار سے فروخت کرنا جائز نہیں ہے۔

صورتِ مسئولہ میں سونے کی خرید وفروخت  کرنا چوں کہ بیع صرف ہے اور بیع صرف میں طرفین کا سونا اور پوری   رقم پر  قبضہ کرنا لازمی ہے،لہذا کچھ رقم نقد دینے اور کچھ رقم ادھار کے طور پر رکھنے سے مذکورہ بیع(خرید وفروخت)شرعا درست نہیں ہوگی۔

البحر الرائق میں ہے:

"(هو بيع بعض الأثمان ببعض) كالذهب والفضة إذا بيع أحدهما بالآخر أي بيع ما من جنس الأثمان بعضها ببعض وإنما فسرناه به ولم نبقه على ظاهره ليدخل فيه بيع المصوغ بالمصوغ أو بالنقد فإن المصوغ بسبب ما اتصل به من الصنعة لم يبق ثمنا صريحا ولهذا يتعين في العقد ومع ذلك بيعه صرف ...شرائطه فأربعة، الأول قبض البدلين قبل الافتراق بالأبدان.

(قوله: فلو تجانسا شرط التماثل والتقابض) أي النقدان بأن بيع أحدهما بجنس الآخر فلا بد لصحته من التساوي وزنا ومن قبض البدلين قبل الافتراق."

(باب الصرف، ج:6، ص:209، ط:دارالكتب الاسلامى)

فتاویٰ مفتی محمودؒ میں ہے:

"سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین دریں مسئلہ کہ آج مثلاً سونے کا حاضر بھاؤ ۶۰۰ روپے فی تولہ ہے، ایک سنار ہم سے ۱۰ تولہ سونا مانگتاہے، ایک ماہ کے ادھار پر ہم ا س سے کہتے ہیں کہ میں تو ۶۴۰ روپے فی تولہ دوں گا۔ وہ کہتا ہے کہ دے دو، رقم ایک ماہ میں ادا کردوں گا۔ ہم اس کو سونا دیتے ہیں تو عرض یہ ہے کہ آج کے بھاؤ سے ہمیں ۱۰ تولہ سونے میں ۴۰۰ روپے بچت ہوتی ہے، کیا یہ ہمارے لیے جائز ہے یا نہیں؟
جواب:یہ تو بیع صرف ہے، اس میں اُدھار جائز نہیں،بیع سابق صحیح نہیں ہے، فاسد ہے، اس میں جو نفع ہوا ہے‘ خیرات کردیا جائے۔"

(کتاب الربا،ج:۸، ص:۴۰۱،ط:جمعیۃ پبلیکیشنز) 

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144408102125

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں