سود پر رقم لے کراس سے کاروبار کرنے سے کاروبار کی کمائی حلال رہتی ہے ؟
صورتِ مسئولہ میں کاروبار کر نے کے لیے سود پر قرض لینا ناجائز اور حرام ہے ، تاہم اگر کسی نے سودی قرض لے کر کاروبارکیا تو حاصل شدہ نفع حرام نہیں ہو گا یعنی صدقہ کرنا لازم نہیں ہو گا، البتہ سود ادا کر نے کی وجہ سے گناہ گار ہو گا، اس لیے سودی قرضہ لے کر کارو بار نہیں کرنا چاہیے۔
ہدایہ میں ہے :
"ومن اشترى جاريةً بيعًا فاسدًا و تقابضا فباعها و ربح فيها تصدق بالربح و يطيب للبائع ما ربح في الثمن".
(کتاب البیوع، فصل فی احکامہ،53/3،دار احیاء التراث)
ہدایہ کی مذکورہ عبارت کے ضمن میں مفتی ولی حسن ٹونکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
" ایک شخص تجارت کرنے کی نیت سے بینک سے سود پر رقم لیتا ہے اور اس سے تجارت کرتاہے اور نفع حاصل کرتا ہے ، عام خیال یہ ہے کہ اس نے سود سے رقم حاصل کی ہے لہذا ساری بیع حرام ہو گی ! لیکن حقیت یہ ہے کہ سود لینا تو حرام ہے لیکن بینک والوں نے اپنی چیز نہیں دی بلکہ امانت کے جو پیسے ان کےپا س رکھے تھے وہ غصب سے دیے ہیں تو اس لینے والے کے لیے اس پیسے سے جو نفع حاصل ہو ا ہے وہ نفع کے پیسے حرام نہیں ہو ں گے، لیکن گناہ گا ر ہو گا ۔"
(درس ہدایہ ، باب البیع الفاسد ، فصل فی احکامہ ،ص: 222،ط:مکتبہ اقرا)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144512101115
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن