بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

سودی رقم سے مسجد یا مدرسہ کے بیت الخلا بنوانا


سوال

ایک شخص کی نوکری ہے اور  اس نے اپنا پیسہ  بینک  میں جمع کر رکھا ہے، اب جب  کہ اُس نے بہت دنوں کے بعد اپنا بینک  ڈیٹیل چیک کیا تو اسے پتا  چلا  کہ بینک  میں انٹرسٹ کا پیسہ  تقریبًا ایک  لاکھ  روپیہ  ہے تو  کیا اس پیسہ کو نکال کر مسجد یا مدرسہ کے بیت الخلا  میں  استعمال کر سکتے ہیں؟

 اگر پیسہ بینک میں چھوڑ دیں تو ڈر ہے کے اُس پیسے کو حکومت مسلمانوں کے خلاف غلط استعمال کرے گی!


جواب

صورتِ  مسئولہ میں سودی رقم اگر بینک کو  واپس کرنا ممکن نہ ہو  تو  مذکورہ   سودی  رقم ثواب   کی نیت کے بغیر غرباء و مساکین میں تقسیم کرنا واجب ہوگا، مذکورہ رقم مسجد یا مدرسہ کے بیت الخلا  کی تعمیر میں صرف کرنا جائز نہ ہوگا۔

ملحوظ رہے کہ بینک میں سودی اکاؤنٹ کھلوانا جائز نہیں ہے، لہٰذا اگر اپنے اختیار سے سودی اکاؤنٹ کھولا ہو تو اسے فوری طور پر بند کروادیا جائے، یا کرنٹ اکاؤنٹ میں تبدیل کردیا جائے۔ نیز غیرمسلم ملک میں بھی مسلمان کے لیے سودی معاملہ کرنا جائز نہیں ہے۔

المبسوط للسرخسي  میں ہے:

"والسبيل في الكسب الخبيث التصدق." ( ١٢ / ١٧٢)

 الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) میں ہے:

"و الحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، و إلا فإن علم عين الحرام لايحل له و يتصدق به بنية صاحبه." (٥ / ٩٩)

فتاوی شامی میں ہے:

و يردّونها على أربابها إن عرفوهم، و إلا تصدقوا بها؛ لأنّ سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه اهـ

( كتاب الحضر و الاباحة، فصل في البيع، ٦ / ٣٨٥، ط: دار الفكر)

منحة الخالق لابن العابدين میں ہے:

"وَ يَجِبُ عَلَيْهِ تَفْرِيغُ ذِمَّتِهِ بِرَدِّهِ إلَى أَرْبَابِهِ إنْ عُلِمُوا وَ إِلَّا إلَى الْفُقَرَاءِ."

(منحة الخالق علی البحر، كتاب الزكوة، شروط وجوب الزكوة، ٢ / ٢١١، ط: دار الكتاب الإسلامي )

المصنف لابن أبي شیبهمیں ہے:

"عن إبراهیم بن مهاجر قال: سألت إبراهیم عن الصدقة على غیر أهل الإسلام، فقال: أما الزكاة فلا، وأما إن شاء رجل أن یتصدق فلا بأس."

(ما قالوا في الصدقة یعطي منها أهل الذمة، ٦ / ٥١٣، رقم: ١٠٤١٠)

المجموع شرح المهذب للنووی میں ہے:

"{فَرْعٌ} يُسْتَحَبُّ أَنْ يَخُصَّ بِصَدَقَتِهِ الصُّلَحَاءَ وَأَهْلَ الْخَيْرِ وَ أَهْلَ الْمُرُوءَاتِ وَالْحَاجَاتِ فَلَوْ تَصَدَّقَ عَلَى فَاسِقٍ أَوْ عَلَى كَافِرٍ مِنْ يَهُودِيٍّ أَوْ نَصْرَانِيٍّ أَوْ مَجُوسِيٍّ جَازَ."

(باب زكوة الذهب و الفضة، باب قسم الصدقات، ٦ / ٢٤٠، ط: دار الفكر)

  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201923

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں