بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سودی رقم کو کھانے پینے کے علاوہ کسی چیز میں استعمال کرنا


سوال

 بینک  میں جب ہم رقم جمع کرتے ہیں تو وہ  رقم کچھ دن کے بعد  بڑھ جاتی ہے،  جسے سود کہا جاتا ہے تو اس بڑھی ہوئی رقم کا کیا حکم ہے؟  کیا اس رقم کو ہم ایسی جگہ خرچ کر سکتے ہیں جو  ہمارے  کھانے  سے متعلق  نہ ہو،  مثال  کے طور پے جیسے گاڑی میں  پیٹرول ڈلوادیں  یا  چپل  جوتے  وغیرہ  خرید لیں،  اس  رقم کا  کیا  صحیح حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ سود  کی  مد  میں حاصل شدہ رقم سے  ہر صورت میں انتفاع حرام ہے ،  چاہے  وہ کھانے پینے  کی صورت  میں ہو یا کھانے پینے کے علاوہ کسی صورت میں ہو،  جیسے  پیٹرول  وغیرہ۔سودی  رقم کا حکم یہ ہے  کہ اول تو  وہ بینک  سے  حاصل ہی نہ کی جائے؛ کیوں کہ  سود کی رقم کا وصول کرنا بھی گناہ ہے اور اگر کسی  وجہ سے  قبضہ میں آگئی ہے  تو  اول تو کوشش کی جائے بینک کو رقم لوٹائی جائے  اور اگر ممکن نہ ہو ج تو کسی مستحق زکوۃ کو بغیر ثواب کی نیت  سے صدقہ کردے۔

تحفة الفقهاء (2/ 60)ط: دار الكتب العلمية:

"ثم المشتري شراء فاسدا هل يملك التصرف في المشترى وهل يكره ذلك فنقول لا شك أنه قبل القبض لا يملك تصرفا ما لعدم الملك فأما بعد القبض فيملك التصرفات المزيلة للملك من كل وجه أو من وجه نحو الإعتاق والبيع والهبة والتسليم والتدبير والاستيلاد والكتابة لأن هذه التصرفات تزيل حق الانتفاع بالحرام ولكن هل يباح له التصرفات التي فيها انتفاع بالمبيع مع قيام الملك اختلف المشايخ قال بعضهم: لايباح الانتفاع به حتى لايباح له الوطء إن كانت جاريةً و لا الأكل إن كان طعامًا و لا الانتفاع به إن كان دارا أو دابة أو ثوبا وبعض مشايخنا قالوا لا يباح له الوطء لا غير ويباح له سائر أنواع الانتفاعات.

فالأولون قالوا: إن هذا ملك خبيث فلايظهر الملك في حق حل الوطء والانتفاع احتياطًا والآخرون قالوا: إن المالك سلطه على التصرف وأباح له التصرف فكل تصرف يباح بالإذن يباح بهذا البيع والوطء لا يباح بإذن المال فلا يباح بالتسليط بخلاف سائر الانتفاعاتوأما الكراهة فنقول ذكر الكرخي وقال يكره التصرفات كلها لأنه يجب عليه الفسخ لحق الشرع وفي هذه التصرفات إبطال حق الفسخ أو تأخيره فيكره و قال بعض مشايخنا: لايكره التصرفات المزيلة للملك لأنه يزول الفساد بسببها فأما التصرفات التي توجب تقرير الملك الفاسد فإنه يكره والصحيح هو الأول."

تفسير القرطبي (3/ 330) آیت ۲۷۵:

"قوله تعالى : { الذين يأكلون الربا } يأكلون يأخذون فعبر عن الأخذ بالأكل لأن الأخذ إنما يراد للأكل."

رد المحتار:99/5 ط:ایچ ای سعید:

"و الحاصل: أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق به بنية صاحبه."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111200140

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں