بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سودی رقم کسی کو بطورِ قرض دینے کا حکم


سوال

2020ء سے 2024ء تک میرے پیسے بینک میں رکھے ہوئے تھے، جس کا ماہانہ سود ملتا ہے، شروع شروع میں میں نے اس کا حساب لگا کر الگ نہیں کیا، اسی مہینے میں نے حساب لگایا تو 80 لاکھ روپیہ سے زیادہ سود ہے، جس کا مجھے کوئی مطلب نہیں ہے، اور الگ account بنوا کر اس میں ڈال دیں گے۔

پچھلے دن کسی رشتے دار نے میری بہن کے ذریعے 182000 کا قرض مانگا، اور کہا کہ شام تک واپس کردوں گا، شام ہوئی تو بتایا کہ میں نے کسی Application سے جوا کھیلا ہے، اس کے نتیجے میں قرض چڑھ گیا، اور میں مشکل میں پھنسا ہوا ہوں۔

1۔ تو مجھے خیال آیا کہ میرے پاس سود کے 80 لاکھ روپے ہیں، تو اس کے جوے کا قرض چکانے کے لیے بغیر کسی نیت کے مدد کرتے ہوئے 182000 اس کو قرض دے سکتا ہوں؟

2۔ بعد میں میری بہن کے ذریعے میرا قرض (182000) واپس کریں، تو وہ پیسے بھی سود شمار ہوں گے؟

جواب

1۔ واضح رہے کہ جو حرام مال بغیر عوض کے حاصل ہوا ہو تو اس  کا حکم یہ ہے کہ  اگر حقدار (اور اگر حقدار معلوم نہ ہو یافوت ہوگیا ہو تو اگرورثاء) معلوم ہے اور حقدار تک مال کا پہنچانا ممکن ہے تو حقدار تک اس کا حق پہنچانا فرض ہے، اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو  ثواب کی نیت کے بغیر  اسے مستحقِ زکوۃ کو صدقہ کرنا ضروری ہے، لیکن حرام (سودی) مال کو اپنے استعمال میں لانا، یا کسی کو قرض دینا، یا کوئی اور  تصرف کرنا شرعاً جائز نہیں ہوتا، لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ سودی رقم بطورِ قرض دینا جائز نہیں ہے، بلکہ ثواب کی نیت کے بغیر اسے صدقہ کرنا لازم ہے۔

2۔ مذکورہ سودی رقم اگر بطورِ قرض دیدی جائے تو مقروض واپس کرتے وقت جو رقم ادا کرے گا، تو وہ حرام (سود) ہی شمار ہوگا، کیوں کہ ملکیت بدلنے سے حرمت ختم نہیں ہوجاتی، بلکہ اس کی حرمت بر قرار ہی رہے گی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ويردونها على أربابها إن عرفوهم، وإلا تصدقوا بها لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه."

(کتاب الحظر والاباحة، فصل فی البیع، ج: 6، ص: 385، ط: سعید)

وفيه أيضاً:

"والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه."

(کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، مطلب فیمن ورث مالاحراما، ج: 5، ص: 99، ط: سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"ويجب ‌عليه ‌تفريغ ‌ذمته برده إلى أربابه إن علموا وإلا إلى الفقراء."

(كتاب الزكاة، شروط وجوب الزكاة، ج: 2، ص: 221، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے:

"‌الحرمة ‌تتعدد مع العلم بها.

(قوله ‌الحرمة ‌تتعدد إلخ) نقل الحموي عن سيدي عبد الوهاب الشعراني أنه قال في كتابه المنن: وما نقل عن بعض الحنيفة من أن الحرام لا يتعدى ذمتين، سألت عنه الشهاب ابن الشلبي فقال: هو محمول على ما إذا لم يعلم بذلك، أما لو رأى المكاس مثلا يأخذ من أحد شيئا من المكس ثم يعطيه آخر ثم يأخذ من ذلك الآخر آخر فهو حرام اهـ."

(كتاب البيوع، ‌‌باب البيع الفاسد، مطلب ‌الحرمة ‌تتعدد، ج: 5، ص: 99،98، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507101692

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں