بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سودی رقم کا حکم


سوال

ایک بندہ سود کرتا ہو اور بعد میں توبہ کی، اب اگر اس کے پاس سود کے پیسے ہوں پہلے والے تو آیا وہ سود میں شمار ہوں گے؟ اگر سود میں شمار ہیں تو اب وہ اس کا کیا کرے؟

جواب

واضح رہے کہ سود کے گناہ سے توبہ کرنے کے بعد بھی جو سودی رقم پہلے وصول کرچکا ہے وہ سود ہی رہے گی، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اصل رقم سے زائد جو سودی رقم ہے، اسے مالک کو لوٹادے اور مالک موجود نہیں ہے تو اس کے ورثاء کو لوٹا دے، اور اگر مالک یا اس کے ورثاء کو لوٹانا ممکن نہ ہو تو یہ سودی رقم ثواب کی نیت کے بغیر کسی غریب کو صدقہ کرنا لازم ہے۔

العرف الشذي شرح سنن الترمذي (1/ 38):

"إنّ ها هنا شيئان:

 أحدهما: ائتمار أمر الشارع والثواب عليه.

والثاني: التصدق بمال خبيث، والرجاء من نفس المال بدون لحاظ رجاء الثواب من امتثال الشارع، فالثواب إنما يكون على ائتمار الشارع، وأما رجاء الثواب من نفس المال فحرام، بل ينبغي لمتصدق الحرام أن يزعم بتصدق المال تخليص رقبته ولا يرجو الثواب منه، بل يرجوه من ائتمار أمر الشارع، وأخرج الدارقطني في أواخر الكتاب: أن أبا حنيفة رحمه الله سئل عن هذا فاستدل بما روى أبو داود من قصة الشاة والتصدق بها."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144202200337

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں