بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سودی رقم غریب کو صدقہ کرنے کے بعد غریب کا تصرف


سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ سود کے پیسے غریب کو دیئے جائیں اور وہ غریب اپنی طرف سے ان پیسوں کو مسجد مدرسہ میں خرچ کرسکتا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ سود لینا اور دینا شرعا حرام ہے۔ ہاں اگر کسی نے سودی پیسہ لے لیا ہو تو اس پر سچے دل سے اللہ کے حضور توبہ و استغفار کرے اور وہ سودی رقم  جس سے لی ہے اس ہی شخص کو لوٹانا ضروری ہے ۔  اور اگر مالک یا اس کے ورثاء  کو لوٹانا کسی صورت  ممکن ہی نہ ہو تو اسے کسی غریب مستحق کو بغیر ثواب  کی نیت کے صدقہ کردے۔  پھر اس غریب آدمی کی مرضی ہے اس رقم کا مالک بننے کے بعد جہاں چاہے اسے خرچ خرے، خود بھی استعمال کرسکتا ہے اور چاہے تو  اپنی خوشی و ذاتی رائے سے بغیر کسی کے کہنے کے مسجد مدرسے میں بھی دے سکتا ہے،بغیر حیلہ وغیرہ کے۔

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"والسبيل في الكسب الخبيث التصدق".

(کتاب البیوع، ج12، ص172، ط:دارالمعرفة)

منحۃ الخالق لابن العابدين میں ہے:

"‌ويجب ‌عليه ‌تفريغ ‌ذمته ‌برده ‌إلى ‌أربابه ‌إن ‌علموا ‌وإلا ‌إلى ‌الفقراء".

( كتاب الزكوة، شروط وجوب الزكوة، ج2،ص  211، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144506102345

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں