بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ربیع الثانی 1446ھ 11 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

سودی رقم کا مصرف


سوال

سود کی رقم کسی کام میں استعمال کی  جا سکتی ہے یا نہیں؟ اگر ہاں تو کہاں؟

جواب

سو د کا  پیسہ، مالِ حرام ہے  اور  حرام  مال کا حکم یہ ہے کہ  یہ جہاں سے آیا ہے وہیں اسے واپس دے دیا جائے ، یعنی اس کے  مالک کو  لوٹادیا  جائے اور اگر یہ ممکن نہ ہوتو ثواب کی نیت کے بغیر  فقیروں اور غریبوں  میں  تقسیم کردیا جائے، اس رقم کو مسجد وغیرہ میں لگانا  جائز نہیں ہے۔

"فتاوی شامی"  میں ہے:

"والحاصل: أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق به بنية صاحبه."

(5/99،مَطْلَبٌ فِيمَنْ وَرِثَ مَالًا حَرَامًا، ط: سعید)  

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210201207

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں