بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سودی رقم لوگوں سے جمع کرنا


سوال

کیا  سودی رقم کو لوگوں سے جمع کیا جا سکتا ہےغير مسلمين كو دينے  کے لیے ؟

جواب

سو د کا  پیسہ، مالِ حرام ہے اور  اس کا حکم یہ  ہے  کہ اسے وصول نہ کیا جائے، اور اگر وصول کرلیا ہو تو  یہ  جہاں سے آیا ہے  وہیں اسے واپس دے دیا جائے ، یعنی اس کے مالک کو لوٹادیا جائے  اور مالک نہ ہو تو اس کے ورثاء کو لوٹادیا جائے، اور   اگر یہ ممکن نہ ہوتو ثواب کی نیت کے بغیر  فقیروں اور غریبوں میں تقسیم کردیا جائے،اور یہ ذمہ داری اس شخص پر ہے ، جس کے پاس یہ مال حرام موجود ہو۔

 بصورتِ مسئولہ   غیر  مسلمین اگر محتاج ہو  ں تو ایسی صورت میں سودی رقم  انہیں دے سکتے ہیں؛لیکن بہتر یہ ہے کہ  غریب مسلمانوں ہی کو  دی جائے، بشرطیکہ سودی رقم اصل مالک کو واپس کرنا ممکن نہ ہو، پس جن افراد سے یا ادارے سے سود  وصول کیا ہو اگر ان کو لوٹانا ممکن ہو تو اصل افراد کو واپس کرنا شرعًا  ضروری ہوگا۔

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

"بنک کی سودی رقم غریب مسلمانوں کے ہوتے ہوئے غیرمسلم کو دینا جائز ہے؟

الجواب: دے سکتے ہیں، مگر بہتر نہیں ہے، حاجت مند مسلمانوں کا حق مارنے کے مثل ہے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب"۔

( کتاب الزکاة، بعنوان: زکوٰۃ کی تقسیم کا کام غیر مسلم کو سپرد کرنا اور غیر مسلم کو زکوۃ اور سود کی رقم دینا، ۷ / ۱۸۱)

المبسوط للسرخسي  میں ہے:

"والسبيل في الكسب الخبيث التصدق". ( ١٢ / ١٧٢)

فتاوی شامی میں ہے:

لِأَنَّ سَبِيلَ الْكَسْبِ الْخَبِيثِ التَّصَدُّقُ إذَا تَعَذَّرَ الرَّدُّ عَلَى صَاحِبِهِ اهـ.

( كتاب الحظر و الاباحة، فصل في البيع، ٦ / ٣٨٥، ط: دار الفكر)

منحة الخالق لابن العابدين  میں ہے:

"وَيَجِبُ عَلَيْهِ تَفْرِيغُ ذِمَّتِهِ بِرَدِّهِ إلَى أَرْبَابِهِ إنْ عُلِمُوا وَإِلَّا إلَى الْفُقَرَاءِ."

(منحة علي البحر، كتاب الزكوة، شروط وجوب الزكوة، ٢ / ٢١١، ط: دار الكتاب الإسلامي )

المصنف لابن ابی شیبہ   میں ہے:

"عن إبراهیم بن مهاجر قال: سألت إبراهیم عن الصدقة على غیر أهل الإسلام، فقال: أما الزكاة فلا، وأما إن شاء رجل أن یتصدق فلا بأس".

( ما قالوا في الصدقة یعطي منها أهل الذمة، ٦ / ٥١٣، رقم: ١٠٤١٠) 

''فتاوی شامی'' میں ہے:

"و الحاصل: أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق به بنية صاحبه."

 (5/99،مَطْلَبٌ فِيمَنْ وَرِثَ مَالًا حَرَامًا، ط: سعید)  

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209200810

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں