بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرضہ کے لوٹاتے وقت وہی چیز یا اس کی موجودہ مالیت لوٹائی جائے، سودی لین دین حرام ہے


سوال

تین سال پہلے  میں دبئی میں جاب کرتا تھا،  وہاں میں نے چالیس ہزار درہم کا سودی  قرضہ لیا تھا،  جو اس وقت دس لاکھ کے برابر تھا، اس وقت  درہم کی ویلیو انتیس روپے تھی، اس کے بعد میں پاکستان آگیا، اب درہم کی قیمت پینتالیس روپے ہیں،  اب  یہ معلوم کرنا ہے کہ  واپسی ادائیگی انتیس روپے کے حساب کروں گا یا پینتالیس روپے کے حساب سے؟ اور سود سمیت ادائیگی لازمی ہے یا بغیر سود کے؟

جواب

واضح رہے کہ سودی معاملہ کرنے والے کے بارے میں قرآن کریم اور احادیث طیبہ میں بہت سخت وعیدیں  وارد ہوئی ہیں،  سود خود کے ساتھ  اللہ اور اس کے رسول کا اعلان جنگ ہے،  لہذا سود پر مبنی معاملات سے اپنے آپ کو بچانے کا  بھرپور اہتمام کرنا ضروری ہے۔

صورت مسئولہ میں سائل  نے سودی قرضہ لے کر ناجائز اور حرام کام ارتکاب کیاہے، اس پر  کثرت سے استغفار   کرے،  اور واپسی ادائیگی بغیر سود  کے  کرے۔باقی قرض میں    جتنے درہم   لئے ہیں، اتنے درہم سائل کے ذمہ ادا کرنا ضروری ہیں، اگر مالیت ادا کرے تو ادا کے وقت کی مالیت کا اعتبار ہو گا، خواہ اب درھم کی قیمت جو بھی ہو۔

مبسوط سرخسی میں ہے:

"بين شدة الحرمة في الربا بقوله : الآخذ والمعطي والكاتب والشاهد فيه سواء أي في المأثم .... والأصل في الكل قوله تعالیٰ: {ولا تعاونوا على الإثم والعدوان }."

(کتاب الصرف/ج:16/ص:279)

شرح  صحیح البخاری لابن بطال میں ہے:

( وتوعد تعالى من لم يتب منه بمحاربة الله ورسوله وليس فى جميع المعاصى ما عقوبتها محاربة الله ورسوله غير الربا ، فحق على كل مؤمن أن يجتنبه ، ولا يتعرض لما لا طاقة له به من محاربة الله ورسوله ، ألا ترى فهم عائشة هذا المعنى حيث قالت للمرأة التى قالت لها : بعت من زيد بن أرقم جارية إلى العطاء بثمانمائة درهم ، ثم ابتعتها منه بستمائة درهم نقدًا ، فقالت لها عائشة : بئس ما شريت ، أبلغى زيدًا أنه قد أبطل جهاده مع رسول الله إن لم يتب . ولم تقل لها : إنه أبطل صلاته ولا صيامه ولا حجه ، فمعنى ذلك - والله أعلم - أن من جاهد فى سبيل الله فقد حارب عن الله ، ومن فعل ذلك ثم استباح الربا ، فقد استحق محاربة الله."

(کتاب البیوع/ج:6/ص:219/ط:مکتبۃ الرشد السعودیہ)

مبسوط میں ہے:

"أما في باب القرض فالشرط اعتبار المماثلة في العين المقبوضة وصفة المالية."

 (ج:14/ص:58/ط:دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144202200684

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں