کسی شخص کے پاس مسجد کے پیسے ہیں اور اس نے وہ خرچ کر لیے ہیں اور جب اس سے مانگے جائیں تو وہ کہے کہ میں نے بینک سے لون لیا ہوا ہے اور اس کے علاوہ میرے پاس کوئی پیسے نہیں ہیں، کیا وہ پیسے جو اس نے لون لیا ہوا ہے سود پر، وہ پیسے لے کر مسجد میں استعمال کر سکتے ہیں؟
واضح رہے کہ مسجد کے پیسے ذاتی استعمال میں لانا ناجائز ہے اور اس کا حکم یہ ہے کہ توبہ کے ساتھ مسجد کے فنڈ کو اتنی ہی مقدار میں رقم لوٹائی جائےاور آئندہ اس عمل سے اجتناب کیا جائے۔
نیز سودی قرضہ لینا بھی حرام ہے اور اس کا حکم یہ ہے کہ توبہ کے ساتھ اس سودی قرضے کے معاملے کو ختم کیا جائے اور اگر اسے ختم نہیں کیا جاسکتا ہو تو اس پر توبہ و استغفار کیا جائے۔
صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ شخص نے مسجد کی رقم اپنے ذاتی استعمال میں خرچ کر دی ہے تو وہ گناہ گار ہے، اس پر توبہ و استغفار کرنا لازم ہے، نیز اس پر اتنے ہی پیسے مسجد کے فنڈ میں لوٹانا لازم ہے، اگر اس کے پاس صرف وہی رقم ہے جو اس نے بینک سے سودی قرض کے طور پر لی ہے تو وہ رقم مسجد کے فنڈ میں جمع کراسکتا ہے، تاہم اس شخص کو سودی معاملہ کا گناہ ملے گا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"في الدر : المقبوض بقرض فاسد كمقبوض ببيع فاسد
في الرد : قوله كمقبوض ببيع فاسد) أي فيفيد الملك بالقبض كما علمت."
(كتاب البيوع، باب المرابحة والتولية، فصل في القرض، ج5، ص161، سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144405100287
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن