بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سودی قرضہ کا نفع اور اس کی وضاحت


سوال

جنگ اخبار کے کالم "آپ کے مسائل اور ان کا حل" میں گزشتہ دنوں یہ مسئلہ شائع ہوا کہ بینک سے سودی قرض لے کر کاروبار کیا تو اس کی آمدن حلال ہوگی، اسے لے کر بعض لوگ کہہ رہے ہیں کہ آمدن جب حلال ہوگی تو بندہ بینک سے قرض لے لے اور پھر توبہ و استغفار کرلے۔ کیا مذکورہ مسئلہ درست ہے؟ کیا سود کا گناہ نہیں ہوگا؟ نیز کیا سود کو معمولی سمجھ کر کرنا استخفاف میں شمار نہیں ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ بینک  سے سودی قرضہ  لینا بھی ناجائز اور حرام ہے، البتہ کسی نے لاعلمی یا غفلت میں لے لیا تو اب حکم یہ ہے کہ مذکورہ رقم استعمال کیے بغیر جلد از جلد سودی معاملہ ختم کرے اور اگر کوئی اس رقم کو استعمال کرلیتا ہے تو وہ گناہ گار ہوگا۔ تاہم اس رقم کو استعمال کرلینے کے بعد بھی شریعت کا یہی حکم ہے کہ وہ اپنا سودی معاملہ بینک سے ختم کرے، اور جب تک سودی معاملہ برقرار ہے، یہ گناہ گار ہوگا۔ 

البتہ سودی قرض  لے کر  جب اس نے استعمال کرلیا تو اس نے اپنی ملکیتِ فاسدہ کی رقم کو استعمال کیا، اور اپنی رقم استعمال کرنے پر جو تجارتی نفع ہو، وہ جائز ہوتا ہے۔

حاصل یہ ہے کہ اس طرح کرنے سے نفع اگرچہ جائز ہوگا، لیکن سود کے گناہ اور وبال سے جان نہ چھوٹے گی؛  لہذا اس طرح معاملہ کرنے سے اجتناب کرنا واجب ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5 / 161):

"واعلم أن المقبوض بقرض فاسد كمقبوض ببيع فاسد."

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144203200064

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں