بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سودی قرضہ سود لگنے سے پہلے واپس کرنے کی نیت سے لینے کا حکم


سوال

میں ایک کاروبار  کر رہاہوں 2009 سے،  اور سود کی وجہ سے میں نے کبھی اوور ڈرافٹ کی سہولت بینک سے نہیں لی،  اور اب بھی ایسا کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ موجودہ صورتِ حال میں  بینک قرضہ کی سہولت دے رہے ہیں کہ ایک سال کے اندر واپس کرنے کی صورت میں کوئی سود نہیں ہو گا، لیکن اس کے بعد قرض کی رقم پر سود دینا ہوگا،  کیا اس طرح بینک  سے  قرضہ لینا اسلام میں جائز ہے؟  میں اگر قرضہ اس نیت سے  لیتا ہوں کہ ایک سال کے اندر واپس کر دوں گا اور سود سے بچ  جاؤں گا،  لیکن اگر میں ایک سال کے اندر بنک کو قرضہ واپس نہ کر سکا تو پھر قرض کی رقم پر سود دینا پڑے گا،  برائے مہربانی میری راہ نمائی فرمائیں!

جواب

واضح رہے  کہ سودی معاملہ کرنا اور سود پر راضی ہونا مستقل گناہ ہے اور  سود کی رقم دینا الگ گناہ ہے۔ صورتِ مسئولہ میں اگر آپ  ایک   سال کے اندر ہی قرض ادا کردیں تب بھی گو آپ  پر سود دینے کا گناہ تو نہیں آئے گا، لیکن سودی معاملہ کرنا اور اس پر  رضامندی کا اظہار کرنے کا گناہ ضرور آئے گا، اور سودی معاہدہ کرنے والے پر بھی حدیث شریف میں لعنت آئی ہے؛  اس لیے بینک سے قرض لینا اور سودی معاہدہ کرنا ہی ناجائز ہے۔

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (11 / 200):

"إن آيات الربا التي في آخر سورة البقرة مبينة لأحكامه وذامة لآكليه، فإن قلت: ليس في الحديث شيء يدل على كاتب الربا وشاهده؟ قلت: لما كانا معاونين على الأكل صارا كأنهما قائلان أيضًا: إنما البيع مثل الربا، أو كانا راضيين بفعله، والرضى بالحرام حرام".

فقط و الله اعلم 


فتوی نمبر : 144201200418

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں