بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سودی معاہدہ کا حکم


سوال

میں نے اپنے ایک دوست سے 10 لاکھ روپے کاروبار کے لیے لئےتھے انویسٹمنٹ کے طور پر اور یہ معاہدہ ہوا تھا کہ ہر مہینے پچاس ہزار دوں گا لیکن کاروبار نہ چلنے کی بنا پر انہیں پچاس ہزار ماہانہ نہیں دے سکا اسی وجہ سے انہیں مختلف اوقات میں مختلف اعتبار سے پیسے واپس دیتا رہا کبھی 35000  کبھی 40000 کبھی 25 ہزار روپے ۔اب وہ دوست 25000 روپے پر راضی ہو گیا ہے لیکن25000 روپے سے کم پر نہیں یعنی بیس ہزار نہیں لے رہا بلکہ ہر مہینے اسے پچیس ہزار روپے ہر حالت میں چاہیے ۔ہمیں آرڈر ملے یا نہ ملے اسی طرح کبھی کبھار پانچ مہینے کوئی آمدنی نہیں ہوتی لیکن انہیں پھر بھی 25000 حالت میں دینے ہوتے ہیں اسی طرح وہ شخص نقصان میں بھی شریک نہیں ہوگا اب سوال یہ ہے کہ اس طرح میرا ان کو رقم واپس کرنا سود کے حکم میں تو نہیں آتا؟

جواب

صورت مسؤلہ میں اگر آپ نے ان سے یہ معاہدہ کیا تھا کہ ہر حال میں ان کو ہر ماہ 50 ہزار روپے ادا کریں گے اور ان کی رقم محفوظ رہے گی تو مذکورہ معاہدہ سود کا ہے اور اس معاہدہ کرنے پر دونوں فریقین گناہگار ہیں ان پر لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں اور  مذکورہ معاہدے کو توڑ دیں۔ آپ نے  اس معاہدے کی بنیاد پر ان سے پیسے لیے تھے وہ واپس کردیں اور جس قدر ادائیگی ان کو کی ہے وہ اس میں سے منہا کرلیں ۔ معاہدہ ختم کرکے رقم واپس کرنا آپ کی ذمہ داری ہے اور انویسٹمنٹ کرنے کا صحیح   طریقہ یہ ہے کہ مضاربت کے طور پر پیسے دیے جائیں اور نفع کے ساتھ ساتھ نقصان میں بھی انویسٹر شریک ہوں ہر ماہ  خاص 25 ہزارر   وپے کا مطالبہ کرنا شرعا درست نہیں  ۔البتہ انویسٹر جب چاہے اپنی بقیہ رقم کا تقاضا کر سکتا ہے۔
شرح المجلہ لسليم رستم باز میں ہے:

"المضاربة نوع شركةعلى أن رأس المال  من طرف والسعي والعمل من الطرف الآخر."

(شرح المجلة لسليم رستم باز ،كتاب المضاربة،الفصل الاول،المادة:1404ص744)

"ومن شرطها أن يكون الربح بينهما مشاعا لا يستحق أحدهما دراهم مسماة من الربح۔۔۔۔لفساده فلعله لا يربح إلا هذا القدر."

(الهداية،كتاب المضاربة،ج3،ص263)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144310100117

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں