بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

3 جُمادى الأولى 1446ھ 06 نومبر 2024 ء

دارالافتاء

 

سودی قرضے کی راہ نمائی فراہم کرنے والے کال سینٹر میں ملازمت کا حکم


سوال

میں کال سنٹر میں کام کرنا چاہتا ہوں اور اس میں کام یہ ہوگا کہ باہر کے ممالک عموماً یورپ یا امریکا کے لوگوں کو کال کرکے ان کو سودی  قرضہ دینے کی معلومات دی جاتی ہے اور اس کے ساتھ اگر وہ کال کریں تو ان کے مسائل حل کرنے کی کوشش کی جاتی اور جس بینک کے لئے یہ کام کیا جائے وہ کال سنٹر والوں کو تنخواہیں اور ہر نئے بندے کے نام پر کمیشن دیتا ہے ،تو سوال یہ ہے کہ کیا کال سنٹر میں اس طرح کا کام جائز ہے یا مکمل طور پر نا جائز ہے؟

جواب

کال سینٹر میں ملازمت کا حکم کامدار اس بات پر ہے کہ جس ادارے کے لیے کال سینٹرسہولت فراہم کرتا  ہےٗاگر اس ادارے   کا کام شرعاً جائز ہے تو ایسے کال سینٹر  میں ملازمت  اور اس کی   آمدنی جائز ہو گی ورنہ نہیں،چناں چہ صورتِ مسئولہ میں سودی قرضے کی راہ نمائی فراہم کرنے والے کال سینٹر میں کام کرنا جائز نہیں ،البتہ  دیگر کسی کال سینٹر میں  جہاں ناجائز   امور  کی ذمہ داری نہ ہو جائز کام ہو تو وہاں   کام کرنا جائز ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به و إن كان في الأصل فاسدًا؛ لكثرة التعامل و كثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام."

( كتاب الإجارة، باب الاجارة الفاسدة،مطلب في أجرة الدلال،ج6،ص63،ط:سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"و على هذا يخرج الاستئجار على المعاصي أنه لايصح لأنه استئجار على منفعة غير مقدورة الاستيفاء شرعًا كاستئجار الإنسان للعب واللهو، وكاستئجار المغنية، والنائحة للغناء، والنوح."

(كتاب الإجارة،فصل في أنواع شرائط ركن الإجارة،ج4،ص189،ط:دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504102290

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں