بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سودی اور حلال رقم سے حاصل ہونے والے منافع کا حکم


سوال

اگرکاروبار کے پیسوں میں سود کے پیسے مل جائیں  مثلا چالیس ہزار روپے میں پینتیس ہزار سود کے مل جائیں اور پھرانہی  ملےجلے پیسوں سے کاروبار بڑھتاگیا بہت بڑھ گیا تو اب اس کا کیاحکم ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں سائل کا  سودی رقم کاروبار میں استعمال کرنا  درست نہیں تھا اور سائل پر لازم ہے وہ اتنی ہی رقم (پینتیس ہزار) روپے کسی مستحق زکوۃ شخص کو بغیر ثواب کی نیت سے دے دے اور اللہ تعالی سے اپنے اس فعل پر معافی طلب کرے۔

جہاں تک حاصل ہونے والے منافع کا تعلق ہے تو اس کے استعمال کی شرعا اجازت ہوگی اور منافع میں سے کچھ بھی صدقہ کرنا واجب اور ضروری نہیں ہے۔ البتہ احتیاط اور تقوی کا تقاضا یہ ہے کہ جو حرام رقم کا تناسب کل رقم کے مقابلہ میں تھا اسی تناسب سے منافع کا بعض حصہ صدقہ کردیا جائے، چاہے ایک ساتھ کردیا جائے یا آہستہ آہستہ کردیا جائے یعنی مذکورہ صورت میں 46.66 فیصد سرمایہ حرام ہے تو اسی تناسب سے حاصل ہونا والا نفع صدقہ کرنا تقوی کا تقاضا ہے گو کہ استعمال کرنے کی بھی اجازت ہے۔نیز یہ بھی واضح رہے کہ جب سودی رقم کے برابر پینتیس ہزار روپے  صدقہ کردے گا تو پھر آئندہ حاصل ہونے والا نفع استعمال کرنا جائز ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

اكتسب حراما واشترى به أو بالدراهم المغصوبة شيئا. قال ‌الكرخي: إن نقد قبل البيع تصدق بالربح وإلا لا وهذا قياس وقال أبو بكر كلاهما سواء ولا يطيب له وكذا لو اشترى ولم يقل بهذه الدراهم وأعطى من الدراهم دفع ماله مضاربة لرجل جاهل جاز أخذ ربحه ما لم يعلم أنه اكتسب الحرام

(قوله اكتسب حراما إلخ) توضيح المسألة ما في التتارخانية حيث قال: رجل اكتسب مالا من حرام ثم اشترى فهذا على خمسة أوجه: أما إن دفع تلك الدراهم إلى البائع أولا ثم اشترى منه بها أو اشترى قبل الدفع بها ودفعها، أو اشترى قبل الدفع بها ودفع غيرها، أو اشترى مطلقا ودفع تلك الدراهم، أو اشترى بدراهم أخر ودفع تلك الدراهم. قال أبو نصر: يطيب له ولا يجب عليه أن يتصدق إلا في الوجه الأول، وإليه ذهب الفقيه أبو الليث، لكن هذا خلاف ظاهر الرواية فإنه نص في الجامع الصغير: إذا غصب ألفا فاشترى بها جارية وباعها بألفين تصدق بالربح. وقال الكرخي: في الوجه الأول والثاني لا يطيب، وفي الثلاث الأخيرة يطيب، وقال أبو بكر: لا يطيب في الكل، لكن الفتوى الآن على قول الكرخي دفعا للحرج عن الناس اهـ. وفي الولوالجية: وقال بعضهم: لا يطيب في الوجوه كلها وهو المختار، ولكن الفتوى اليوم على قول الكرخي دفعا للحرج لكثرة الحرام اهـ وعلى هذا مشى المصنف في كتاب الغصب تبعا للدرر وغيرها

(کتاب البیوع ،باب المتفرقات ج نمبر ۵ ص نمبر ۲۳۵،ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307200011

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں