بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

سودی آمدنی سے قربانی کا حکم


سوال

میں ایک بیوہ خاتون ہوں، میری ایک ہی بیٹی ہے جو کہ ابھی پڑھ رہی ہے ،ہمارا کوئی کمانے کا ذریعہ نہیں ہے، میرے شوہر کے انتقال کے بعد جو پیسے مجھے ملے تھے ان کے دفتر کی طرف سے وہ میں نے بینک میں فکس کروا دیے ہیں، اس پیسے کا جو سود  آتا ہے اس پہ ہم دونوں ماں بیٹی گزارا کرتے ہیں، میری بیٹی چھوٹی ہے اور میری حالت ایسی نہیں کہ میں نوکری کر سکوں ۔اب میں اس پیسے سے اپنے مرحوم شوہر کے نام پر قربانی کرتی ہوں تو لوگ کہتے ہیں قبول نہیں ہوگی ،براہ مہربانی میری اس مسئلہ میں رہنمائی فرمائیں کیوں کہ میں اپنے مرحوم شوہر کے نام کی قربانی کرنا چاہتی ہوں؟

جواب

واضح  رہے کہ سائلہ کے پاس اگر آمدن کا  کوئی ذریعہ نہیں  تو گزر بسر  کے لیے بجائے بینک میں رقم لگانے کے، کسی جائز و حلال کاروبار میں رقم لگا ئے، یا کوئی جائیداد وغیرہ لے کر کرایہ پر چڑھا دے؛ تاکہ گزر بسر  کا بندوبست بھی ہوجائے اور لقمۂ حرام سے بھی حفاظت ہوجائے۔

نیز بینک سے حاصل ہونے والے سود سے قربانی بھی جائز نہیں، البتہ اس کے علاوہ  سائلہ کاجو اصل پیسہ ہے ، اس سے اپنی اور اپنے شوہر کی طرف  سے  قربانی    کی جاسکتی ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: كلّ قرض جرّ نفعًا حرام) أي إذا كان مشروطًا كما علم مما نقله عن البحر وعن الخلاصة. وفي الذخيرة: وإن لم يكن النفع مشروطًا في القرض، فعلى قول الكرخي لا بأس به، ويأتي تمامه."

 (کتاب البیوع،فصل فی القرض، مطلب كل قرض جر نفعا حرام، ج : 5، ص : 166 ،ط: سعید)

ہندیہ میں ہے:

" وإن كان كل واحد منهم صبياً أو كان شريك السبع من يريد اللحم أو كان نصرانياً ونحو ذلك لايجوز للآخرين أيضاً، كذا في السراجية. ولو كان أحد الشركاء ذمياً كتابياً أو غير كتابي وهو يريد اللحم أو يريد القربة في دينه لم يجزئهم عندنا؛ لأن الكافر لايتحقق منه القربة، فكانت نيته ملحقةً بالعدم، فكأنه يريد اللحم، والمسلم لو أراد اللحم لايجوز عندنا".

(الفتاوى الهندية ، كتاب الأضحية، الباب الثامن فيما يتعلق بالشركة في الضحايا، 5/ 304، الناشر: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311101326

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں