بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 شوال 1445ھ 17 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فنڈ کی اضافی رقم کو مستحقین اور ضرورت مندوں میں تقسیم کرنے کا حکم


سوال

میں ایک پرائیوٹ  کمپنی میں کام کرتاتھا ، وہا ں سے گیارہ سال پہلے ریٹائر ہوچکا ہوں ، کمپنی نے Provident فنڈ کا حساب  دوبارہ لگایا ہے ،اس کے مطابق کمپنی نے Provident فنڈ  كا منافع اپنے ملازمين کو کم دیا تھا،لہذا  کمپنی  اب منافع دے رہی ہے،اس مد میں  کمپنی  مجھے  تقریباً 27 لاکھ  روپے دینا چاہتی ہے،اس پیسے میں  زیادہ تر سود ہے سود جائز نہیں ہے،لہذا میرے ذہن میں دو تجاویز ہیں۔

1۔میں یہ رقم نہ لوں ،اس صورت میں  یہ رقم کمپنی  کے پاس رہی گی اور وہ اس رقم کوبا قی ملازمین میں تقسیم کردے گی۔

2۔میں یہ رقم لے کر بغیر  ثواب  کی نیت  کے غریبوں اور فقراء میں تقسیم کر دوں،اس طرح بہت سے ضروتمندوں  کی ضرورت پوری ہوجائیں گی۔اس معاملے میں مشورہ دے کر ممنون فرمائیں۔

وضاحت: کمپنی  ہماری تنخواہ سے کٹوتی ہماری مرضی  کے مطابق کر تی تھی۔

جواب

واضح رہے  کہ    پروایڈنٹ فنڈ کی مد میں تنخواہ سے کی جانے والی کٹوتی کی دو صورتیں رائج ہیں 1: جبری  2:۔  اختیاری۔

 سائل  کا ادارہ جو کٹوتی سائل کی مرضی اور اختیار سے کرتا تھا،اسے اختیاری کٹوتی کہتے ہیں، اس پر ملنے والی اضافی رقم سے متعلق حکم یہ ہے کہ جتنی رقم سائل کی کٹتی تھی وہ اور اس پر جو اضافہ مذکورہ کمپنی اپنی طرف سے کرتی تھی، ان دونوں قسم کی رقم کا لینا تو سائل کے لئے جائز ہے،البتہ اس پر مزید بینک وغیرہ کی طرف سے جو سود لگتا تھا، اس سودی رقم کا لینا ہی جائز نہیں ، چہ  جائیکہ بینک والی سودی رقم لے کر غرباء میں تقسیم  کی جائے،باقی اگر مذکورہ کمپنی بینک والی سودی  رقم  اپنے ملازمین  میں تقسیم  کرتی ہے تو اس کا گناہ سائل پر نہیں   ہوگا۔

اور اگر یہ کٹوتی جبری ہوتی تھی یعنی سائل کی مرضی کے بغیر ہی کمپنی سائل کی تنخواہ سے کاٹ لیتی تھی تو اس صورت میں اس پر کمپنی کی طرف سے ملنے والی اضافی تمام رقم تبرع اور گفٹ کی مد میں ہوگی،اس پر  سود کا اطلاق نہیں ہوگا،اس تمام رقم کا لینا سائل کے  لیے جائز ہو گا۔

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: بل بالتعجيل أو بشرطه أو بالاستيفاء أو بالتمكن) يعني لايملك الأجرة إلا بواحد من هذه الأربعة، والمراد أنه لايستحقها المؤجر إلا بذلك، كما أشار إليه القدوري في مختصره، لأنها لو كانت دينًا لايقال: إنه ملكه المؤجر قبل قبضه، وإذا استحقها المؤجر قبل قبضها، فله المطالبة بها وحبس المستأجر عليها وحبس العين عنه، وله حق الفسخ إن لم يعجل له المستأجر، كذا في المحيط. لكن ليس له بيعها قبل قبضها".

(البحر الرائق ج: 7، ص: 300، ط: دارالكتاب الإسلامي)

 وقال اللہ تعالیٰ فی القرآن الكريم :

"وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ." ﴿المائدة: ٢﴾  

ترجمہ:"اور گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرےکی اعانت مت کرے۔"(ازبیان القرآن)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"«وقال في النهاية: قال بعض مشايخنا: كسب المغنية كالمغصوب لم يحل أخذه، وعلى هذا قالوا لو مات رجل، وكسبه من بيع الباذق أو الظلم أو أخذ الرشوة يتورع الورثة، و لايأخذوا منه شيئًا، وهو أولى لهم، ويردونها على أربابها إن عرفوهم، ‌وإلا ‌تصدقوا ‌بها؛ ‌لأن ‌سبيل ‌الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه»."

(کتاب الحظر والاباحہ،ج،6/385 ،ط،سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101698

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں