بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سود کی رقم صدقہ کرنے کے بجائے کاروبار میں لگا کر نفع کمانے کا حکم


سوال

ایک شخص نے کسی آدمی کو سود کی رقم دی اور کہا کہ اس رقم کو غرباء پر تقسیم کر دینا، اس آدمی نے وہ رقم کاروبار میں لگائی اور نفع کمایا تو اس کا کیا حکم ہے؟ 

جواب

اگر کسی کے پاس کسی بھی طریقے سے حرام مال آگیا ہو تو اس کا حکم یہ ہے کہ اگر وہ بلاعوض حاصل کیا گیا ہو اور اس کا مالک معلوم ہو ، جیسے: سود، چوری، رشوت وغیرہ تو اس کے مالک کو واپس کرےاگر مالک وفات پاچکا ہو تو اس کے ورثاء کو لوٹا دیا جائے اور اگر یہ ممکن نہ ہوتو  ثواب کی نیت کے بغیر  اسے کسی غریب کو دینا ضروری ہے اور اگر حرام کا مال کسی چیز کے بدلے میں حاصل کیا گیا ہو، جیسے حرام ملازمت وغیرہ کے ذریعے کمائی گئی آمدنی ہو تو اسے مالک کو واپس کرنا درست نہیں ہے، بلکہ  اسے ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کردیا جائے۔

لہذا  صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کا سودی رقم کو کاروبار میں لگانا جائز نہیں، بلکہ اسے جلد از جلد ثواب کی نیت کے بغیر کسی غریب کو دینا ضروری ہے۔ 

تفصیل کے لیے درج ذیل لنکس پر فتاویٰ دیکھیے:

حرام رقم سے مال کمانا اور اس کو صدقہ کرنا

بینک کی کمائی سے شروع کیے گئے کاروبار کا حکم

عمدۃ القاری میں ہے:

"مطابقته للآية التي هي مثل الترجمة من حيث إن آيات الربا التي في آخر سورة البقرة مبينة لأحكامه وذامة لآكليه، فإن قلت: ليس في الحديث شيء يدل على كاتب الربا وشاهده؟ قلت: لما كانا معاونين على الأكل صارا كأنهما قائلان أيضا: إنما البيع مثل الربا، أو كانا راضيين بفعله، والرضى بالحرام حرام".

(عمدة القاري شرح صحيح البخاري، كتاب البيوع،باب آكل الربا وشاهده وكاتبه،ج:11/ 200،ط:دار احياث العربي۔بيروت)

''فتاوی شامی'' میں ہے:

"والحاصل: أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق به بنية صاحبه".  

( كتاب البيوع، باب البيع الفاسد 5/ 99 ط: سعید)  

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: اكتسب حراما إلخ) توضيح المسألة ما في التتارخانية حيث قال: رجل اكتسب مالًا من حرام ثم اشترى فهذا على خمسة أوجه: أما إن دفع تلك الدراهم إلى البائع أولا ثم اشترى منه بها أو اشترى قبل الدفع بها ودفعها، أو اشترى قبل الدفع بها ودفع غيرها، أو اشترى مطلقا ودفع تلك الدراهم، أو اشترى بدراهم أخر ودفع تلك الدراهم. قال أبو نصر: يطيب له ولا يجب عليه أن يتصدق إلا في الوجه الأول، وإليه ذهب الفقيه أبو الليث، لكن هذا خلاف ظاهر الرواية فإنه نص في الجامع الصغير: إذا غصب ألفا فاشترى بها جارية وباعها بألفين تصدق بالربح. وقال الكرخي: في الوجه الأول والثاني لا يطيب، وفي الثلاث الأخيرة يطيب، وقال أبو بكر: لا يطيب في الكل، لكن الفتوى الآن على قول الكرخي دفعا للحرج عن الناس اهـ. وفي الولوالجية: وقال بعضهم: لا يطيب في الوجوه كلها وهو المختار، ولكن الفتوى اليوم على قول الكرخي دفعا للحرج لكثرة الحرام اهـ وعلى هذا مشى المصنف في كتاب الغصب تبعا للدرر وغيرها."

( كتاب البيوع، باب المتفرقات من ابوابها، مطلب إذا اكتسب حراما ثم اشترى فهو على خمسة أوجه، ٥ / ٢٣٥، ط: دار الفكر)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144301200008

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں