بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کی سود کی آمدنی کا بیٹے کی آمدنی پر اثر


سوال

 زید کے والد کا سود کا کاروبار ہے اور اسی سود کی رقم سے والد نے زید کو سعودی عرب میں کام کرنے کے لیے بھیجا ہے جو بھی وہاں جانے میں خرچ ہوا ہے سب سود کے پیسوں کا تھا... اب جیسے بقرہ عید آرہی ہے تو زید کے والد ہمارے ساتھ حصہ لینا چاہتے ہیں . ہم نے ان کومنع کر دیا ہے یہ کہہ کر کہ آپ سود کا کام کرتے ہیں. تو زید کے والد نے جواب میں کہا ہے. کہ میں اپنے بیٹے کی کمائی ہوئی رقم سے حصہ لینا چاہتا ہوں نہ کہ اپنی کمائی سے تو زید کے والد کا اس کمائی سے حصہ لینا کیسا ہے جس کمائی ہوئی رقم کی بنیاد سود پر رکھی ہوئی ہے ۔

جواب

صورت مسؤلہ میں  اگر زید خود سود کا کام نہیں کرتا اور اس کی آمدنی کا ذریعہ  حلال ہے، تو  اگر چہ اس کا وہاں جانا والد کے سود کے پیسوں سے ہوا ہولیکن زید کو اجرت  اپنے حلا ل کام کی ملتی ہے، لہذا  اس کی آمدنی  شرعا حرام نہیں کہلائے گی   اور اس کے پیسوں سے   قربانی کے جانور  میں شریک ہونا   جائز ہے۔

'' تکملة فتح الملهم'' میں ہے:

"إن کان لا یتعدی ضرره إلی غیره فلا حاجة للمحتسب أن یتجسس في أمره … أما إذا تعدی ضرره إلی أحد غیره أو إلی المجتمع بصفة عامة، فإنه یجوز للمحتسب أو لموظف آخر منصوب من قبل الحکومة لهذا الغرض أن یهجم علیه وعلی ذلک یحمل قول أبي یوسف رحمه الله، ویحتمل أن یوفق بذلک فیما بین الوقائع المختلفة لسیدنا عمر رضی الله عنه، فالتجسس الممنوع هوما کان لمجرد الاطلاع علی عورات الناس وهتک سترهم لإخزاء هم، أما ما کان لغرض اجتماعي مقبول مثل ما ذکرنا فلیس من التجسس المحظور."

(کتاب الاضحیۃ-۳۶۰/۵ ط: معارف القران)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311101299

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں