بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سود کے گناہ کا کفارہ


سوال

میرے والدین کاانتقال  دوسال پہلے ہوچکاہے ،بہت ہی نیک عبادت گزار تھے۔اور بچوں کی اچھی تربیت کی ،اور  وقت پر ان کی شادی کی۔ اور لوگوں کے ساتھ ہمدردی بھی کرتے تھے۔بس ایک غلطی  ان سے ہوئی   کہ بینک میں پیسے  انویسٹ (سرمایہ کاری )کرکے  اس پر انٹرسٹ(سود)  لیا۔اب کفارہ کی کوئی صورت بتادے تاکہ ان کو کوئی تکلیف نہ ہو۔

جواب

واضح رہے کہ بینک میں بوقت ضرورت صرف غیر سودی کھاتہ(کرنٹ اکاؤنٹ/لاکر) کھولنے کی اجازت ہے، سودی اکاؤنٹ کھولنا جائز نہیں ہے، لا علمی یاغفلت میں اگر سودی اکاؤنٹ کھولا گیا ہو تواسے فورا بند کردینا چاہیے، صرف اپنی اصل رقم استعمال کریں، سودی رقم وصول ہی نہ کریں اور اگر سودی رقم وصول کرلی ہو، تو اس کی تلافی کا طریقہ یہ ہے کہ  ثواب کی نیت کے بغیر  وہ رقم  کسی مستحق زکوۃ کو دے دی جائے۔

لہذا صورت مسئولہ میں  سائلہ کے والدین نے بینک سے سود کی جورقم لے کر استعمال  کی ہے  اتنی  رقم بلا نیت ثواب صدقہ کردیں اور والدین کے لیے خوب  توبہ واستغفار کا اہتمام کریں۔ 

ردالمحتارمیں ہے:

"ويردونها على أربابها إن عرفوهم، وإلا تصدقوا بها لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه"

(کتاب الحظر والاباحة ، فصل فی البیع، ج 6، ص385، ط: سعید)

رد المحتار میں ہے:

"والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه"

(کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، مطلب فیمن ورث مالاحراما، ج 5، ص 99، ط: سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"وعلى هذا لو مات رجل وكسبه من ثمن الباذق والظلم أو أخذ الرشوة تعود الورثة ولا يأخذون منه شيئا وهو الأولى لهم ويردونه على أربابه إن عرفوهم، وإلا يتصدقوا به؛ لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد"

(کتاب الکراهية، فصل فی البیع، ج 8، ص 369، ط: دار الکتب العلمیة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144408100660

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں