بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سود کے پیسوں سے معلم کی تنخواہ دینا


سوال

زید کو  بینک  سے  پچاس  ہزار  سود  ملا  ہے،  پوچھنا یہ ہے کہ اس رقم  سے  مدرسے  کے معلم کو تنخواہ دینا جائز ہے یا نہیں؟ واضح ہوکہ زید  نے مدرسے کو وہ رقم بغیر ثواب کی نیت سے دے دیا ہے!

جواب

واضح رہے کہ ناجائز  اور  حرام رقم کا حکم یہ ہے کہ اسے بغیر ثواب کی نیت کے مستحقِ زکات شخص کو دے دیا جائے، اور اس میں اپنی طرف سے صدقہ یا ثواب کی نیت ملحوظ نہیں ہوتی، بلکہ اس کے وبال سے جان چھڑانے کے لیے، یا اگر وہ کسی مخصوص فرد کا حق ہو اور اس شخص اور اس کے ورثاء تک پہنچانا ممکن نہ ہو تو اس کے مالک کی طرف سے بطور صدقہ،   اُسے دیا جاتاہے۔

صورتِ  مسئولہ  میں 

مذکورہ  رقم سے  مدرسہ کے  غیر زکاۃ کے فنڈ میں جمع کرانا مکروہ  تھا، اور اگر زکاۃ کے فنڈ میں جمع کرائی تھی تو تملیک کے بعد اس رقم سے تنخواہ  دینا جائز  تھا۔

سنن أبي داود (5/ 221، المكتبة العصرية):

"حدَّثنا محمدُ بن العلاء، أخبرنا ابنُ إدريسَ، أخبرنا عاصمُ بن كُلَيب، عن أبيه عن رجل من الأنصار، قال: ْ خرجْنا مع رسولِ الله -صلَّى الله عليه وسلم- في جَنَازةٍ، فرأيتُ رسولَ الله صلَّى الله عليه وسلم وهو على القبر يُوصي الحافرَ: "أوْسِعْ من قِبَلِ رجلَيه، أوسِعْ من قِبَل رأسِه"، فلما رجع استقبلَه داعي امرأةٍ، فجاء، وجيء بالطَّعام فوضَع يدَه، ثم وضع القومُ فأكلُوا، ففطِنَ آباؤنا و رسولُ الله صلَّى الله عليه وسلم يلوكُ لقمةَ في فمه، ثم قال: "أجِدُ لحمَ شاةٍ أُخِذَت بغير إذن أهلها" فأرسلتِ المرأةُ: يا رسولَ الله، إني أرسلتُ إلى النقيع تُشتَرى لي شاةٌ، فلم أجِدْ،فارسلتُ إلى جارٍ لي قد اشترى شاةً: أن أرسِلْ بها إليّ بثمنِها فلم يوجَدْ، فأرسلتُ إلى امرأتِه، فأرسلتْ إليّ بها، فقال رسولُ الله صلَّى الله عليه وسلم: "أطْعِمِيهِ الأُسارَى."

ترجمہ :… ایک انصاری شخص سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک جنازہ میں گئے میں نے دیکھا کہ آپ قبر کے پاس کھڑے ہوئے قبر کھود نے والے کو تعلیم دے رہے ہیں کہ پائنتی کی طرف ذرا اور کھول، سر کی طرف ذرا اور کشادہ کر۔ جب آپﷺ تدفین سے فارغ ہو کر لوٹے تو دعوت کرنے والی عورت کی طرف سے ایک شخص آپ کو بلا نے آیا آپ اس کے گھر تشریف لے گئے۔ کھانا لایا گیا تو پہلے آپﷺ نے کھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا، اس کے بعد دوسرے لوگوں نے ہاتھ بڑھایا اور کھانا شروع کر دیا، ہمارے بزرگوں نے حضور ﷺ کو دیکھا کہ آپﷺایک ہی لقمہ کو چبا رہے ہیں، لیکن نگلتے نہیں، اس کے بعد آپ ﷺ  نے فرمایا:  مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ گوشت ایسی بکری کا ہے جو مالک کی مرضی کے بغیر حاصل کی گئی ہے، یہ سن کر اس عورت نے کہلوایا کہ یا رسول اللہ(ﷺ)! میں نے نقیع (بکریوں کا بازار) میں اپنا ایک آدمی بکری کی خریداری کے  لیے بھیجا، لیکن وہاں بکری نہ ملی تو  میں نے اپنے پڑوس کے پاس کہلا بھیجا کہ جو بکری تم نے خریدی ہے، وہ اسی قیمت پر مجھ کو دے دو،   اتفاق سے وہ پڑوسی بھی اپنے گھر میں موجود نہ تھا،  میں نے اس کی بیوی سے کہلا بھیجا تو اس نے وہ بکری میرے پاس بھیج دی۔ آپ  ﷺ نے فرمایا:  یہ گوشت قیدیوں کو کھلا دو۔"

العرف الشذي شرح سنن الترمذي (1/ 38):

"إن ها هنا شيئان:

أحدهما: ائتمار أمر الشارع والثواب عليه.

و الثاني: التصدق بمال خبيث، والرجاء من نفس المال بدون لحاظ رجاء الثواب من امتثال الشارع، فالثواب إنما يكون على ائتمار الشارع، وأما رجاء الثواب من نفس المال فحرام، بل ينبغي لمتصدق الحرام أن يزعم بتصدق المال تخليص رقبته ولا يرجو الثواب منه، بل يرجوه من ائتمار أمر الشارع، وأخرج الدارقطني في أواخر الكتاب: أن أبا حنيفة رحمه الله سئل عن هذا فاستدل بما روى أبو داود من قصة الشاة والتصدق بها."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 658):

"(قوله: لو بماله الحلال) قال تاج الشريعة: أما لو أنفق في ذلك مالاً خبيثاً ومالاً سببه الخبيث والطيب فيكره ؛ لأن الله تعالى لا يقبل إلا الطيب، فيكره تلويث بيته بما لا يقبله. اهـ. شرنبلالية."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110200686

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں