کیا سود کی رقم سے مستحقین کا قرض ختم کیا جاسکتا ہے؟کیا مستحقین اور لاوارث افراد کے کھانے پینے اور دفنانے میں سودی رقم استعمال کی جاسکتی ہے؟چوں کہ اس وقت ملکی حالات آپ کے سامنے ہیں اور عوام بھوک وافلاس کی وجہ سے خو د کشیاں کررہے ہیں۔کیا سود کی رقم ان پر استعمال کی جاسکتی ہے؟جن کاذریعہ معاش کوئی بھی نہ ہو،کیاسود کی رقم سے دیوار بنائی جاسکتی ہے؟اسی طرح مذکورہ رقم جسمانی معذوروں پر خرچ کی جاسکتی ہے؟
واضح رہےکہ جس طرح سودی رقم کا استعمال کرنا حرام ہے اسی طرح سودی رقم کو وصول کرنا بھی حرام ہے،البتہ اگر کسی شخص کو مسئلہ معلوم نہ تھا اور اس نے یہ رقم وصول کر لی ہو تو اس کے لیے یہ حکم ہے کہ پہلے تو وہ یہ کوشش کرے کہ جہاں سے یہ سودی رقم لی ہے اسی کو واپس کردے، لیکن اگر باوجود کوشش کے اسی شخص یا ادارے کو واپس کرنا ممکن نہ ہو تو پھر کسی ضرورت مند مستحقِ زکاۃ غریب شخص کو یہ رقم ثواب کی نیت کے بغیر دے دے۔
مذکورہ تفصیل کی رو سےسودی رقم کسی مقروض ،یا مستحق زکوۃ غریب شخص کو ثواب کی نیت کے بغیر مالک بناکر دے دی جائے تو جائز ہے،باقی جن چیزوں میں رقم خرچ کرنے کی صورت میں مالک بنانا نہیں پایا جاتا یا جن جگہوں پر زکوٰۃ کی رقم کی خرچ نہیں کی جاسکتی وہاں اس رقم کو لگانا جائز نہیں ہے، لہذا اس رقم سے کسی کے تدفین یا کوئی تعمیرات جیساکہ دیوار وغیرہ بنانا درست نہیں ہے،البتہ کسی غریب مستحق کو پہلے مالک بناکر وہ اپنی خوشی سے مذکورہ رقم کسی کے تدفین یا تعمیرات وغیرہ کے لیے دیدیں تو جائز ہوگا۔
نیز یہ ملحوظ رہے کہ اس نیت سے سود اور حرام رقم کمانا کہ اس کو خود استعمال نہیں کریں گے، بلکہ غریبوں کا تعاون اور مدد کریں گے، شرعاً جائز نہیں ہے، ایسے لوگ حرام کا ارتکاب کرکے خود تو گناہ گارہوتے ہیں اورغریبوں کادنیوی فائدہ کرتے ہیں، یہ بڑی نادانی ہے کہ انسان اپنا دینی نقصان کرکے دوسروں کابھلاکرے اور دوسروں کے دنیوی فائدے کے لیے اپنی آخرت بربادکرے،حرام رقم غلطی سے ملکیت میں آگئی ہوتو اسے صدقہ کرنا لازم ہے، مگر اس کایہ مطلب نہیں کہ صدقہ کی نیت سے انسان حرام کماتا رہے خلاصہ یہ ہے کہ صدقہ اور لوگوں کی فلاح وبہبود کی نیت سےحرام مال کمانے کی اجازت نہیں۔
فتاوی شامی میں ہے:
"و الحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق به بنية صاحبه."
( کتاب البیوع، باب البیع الفاسد ، 99/5، ط: سعید)
منحۃ الخالق لابن العابدين میں ہے:
"ويجب عليه تفريغ ذمته برده إلى أربابه إن علموا وإلا إلى الفقراء".
( كتاب الزكوة، شروط وجوب الزكوة، ج2،ص 211، ط: دار الكتاب الإسلامي )
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602102567
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن