بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پچاس قرآنِ شریف ختم کرنے کی نذر ماننا


سوال

ایک شخص نے نذر مانی کہ اگر میرا فلاں کام ہوگیا تو میں پچاس قرآن ختم کروں گا۔اب وہ خو د نہیں پڑھ سکتا تو کیا وہ کسی دوسرے شخص کواجرت  دے کر پڑھواسکتا ہے؟

اور  یہ نذر منعقد بھی ہوتی ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ نذر  لازم ہونے کی چند شرائط ہیں، جن کا پایا جانا شرعا  ضروری ہے:

1۔نذر اللہ رب العزت کے نام کی مانی جائے ، پس غیر اللہ کے نام کی نذر صحیح نہیں۔

2۔ نذر صرف عبادت ِمقصودہ کے کام کے لیے ہو  ، پس جو کام عبادت مقصودہ نہیں اس کی منت بھی صحیح نہیں۔

3۔عبادت ایسی ہو  کہ اس طرح کی عبادت کبھی فرض یا واجب ہوتی ہو، جیسے : نماز ،روزہ ،حج ،قربانی وغیرہ ، پس ایسی عبادت کہ جس کی جنس میں سے کوئی   کبھی فرض یا واجب نہیں ہوتی ہو، جیسے: قرآن خوانی ماننا، مریض کی عیادت ،وضو،غسل وغیرہ   اس کی نذر صحیح نہیں ۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں قرآن کریم کی تلاوت چوں کہ نماز میں فرض ہے ؛اسی لئے اگر کسی نے تلاوتِ قرآنِ مجید کی نذر مانی تو وہ منعقد ہوجائے گی۔ اور نذر ماننے والے کے ذمہ ضروری ہے کہ اس نذر کو پورا کرے ،اور پورا کرنا بھی ممکن ہے ؛کیونکہ یہ نذر مطلق ہے ، اور اس کو پورا کرنے کےلیے پوری زندگی  کا عرصہ موجود ہے،البتہ کسی اورسےپڑھوانے سے نذر پوری نہیں ہوگی۔

البحر الرائق شر ح کنز الدقائقمیں ہے:-

" واعلم بأنهم صرحوا بأن ‌شرط ‌لزوم ‌النذر ثلاثة كون المنذور ليس بمعصية وكونه من جنسه واجب وكون الواجب مقصودا لنفسه."

(کتاب الصوم،فصل مایوجبہ العبد علی نفسہ،ج:2،ص:316،ط:دار  الکتاب الاسلامی)

فتاویٰ شامی میں ہے:-

"النذر ‌المطلق وهو الذي لم يعين فيه (الوقت)."

(کتاب الصلوٰۃ ،باب صفۃ الصلوٰۃ،ج:1،ص:445،ط:ایچ ایم سعید)

وفيه ايضا:-

"وعلى طريقة الفتاوى النذر ملزم في الذمة الساعة ولا يشترط إمكان الأداء."

(کتاب الصوم ،فصل في العوارض المبيحة لعدم الصوم،ج:2،ص:437،ط:ایچ ایم سعید)

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:-

"جتنا قرآن نذر ماننے والاخودپڑھ سکےخود ہی پڑھے،کسی سے اجرت دے کر نہ پڑھوائے۔"

(باب النذور،ج:14،ص:72،ط:دارالافتاء فاروقیہ)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144308101315

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں