بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رجب 1446ھ 19 جنوری 2025 ء

دارالافتاء

 

سونے سے متعلق چند مختلف مسائل


سوال

 ميرےچند سوالات سونے چاندی کے لین دین کے بارے میں ہیں:

1: حديث مىں آیا ہے کہ: '' سونا چاندی کا لین دین ہاتھوں ہاتھ ہو تو جائز ہے، لیکن ادھار کی صورت ميں جائز نہیں ہے ''،  اس کی وضاحت فرما ديں ؟

2: بعض اوقات گاہک ہمارے پاس پرانا بنا ہوا سونا لے کر آتے ہیں اور اس کے بدلے نئے زیورات بنا کر دینے ہوتے ہیں تو جنس سے جنس کو تبدیل کرنے کی جائز صورت کیا ہے ؟ پرانے سونے کی قیمت لگا کر گاہک کو بتا دیں تو ان کے سونے کی قیمت لگ جائے گی اور نیا سونا قیمت کے بدلے میں آ جاۓ گا،  کیا ایسا کرنا جائز ہو گا ؟

3:بعض اوقات گاہک بنا ہوا سونا بیچنے آتے ہیں تو ہم اپنے تجربے پر قیمت لگاتے ہیں کہ اس میں اتنا خالص سونا ہوگا،  تو جب ہم اس کو میلٹ کر کے گولڈ ٹیسٹ لیبارٹری کرتے ہیں تو تین صورتیں بنتی ہیں یا نفع ہوتا ہے یا برابر قیمت نکلتی ہے یا نقصان ہوتا ہے۔  کیا ہمارے لیےایسا کرنا جائز ہے؟ اس کے بدلے جو نفع ملتاہے،  وہ ہمارے لیے حلال ہوگا ؟

4: سونے کا کوئی بھی زیور بغیر ملاوٹ کے نہیں بنتا، اس لئے جہاں سے بھی سونا لیں تو ملاوٹ کے ساتھ تول کر گاہک کو ملتی ہے، مثلاً ایک تولہ اچھا بنا ہوا سونے کا زیور ہو تو اس میں عام طور پر  ڈیڑھ ماشہ ملاوٹ ہوتی ہے،  ساڑھے دس ماشے خالص سونا ہوتا ہے،  لیکن گاہک ڈیڑھ ماشے ملاوٹ کی قیمت خالص سونے کے بھاؤ پر ادا کرتا ہے تو ایسا کرنے سے دوکاندار کی روزی حرام ہو جاۓ گی؟ اس کا حلال طریقہ بتا دیں ؟ اگر دوکاندار ایسا کر لے کہ وزن ایک تولہ ہو اور ڈیڑ ماشہ ملاوٹ کاٹ کر خالص ساڑھے دس ماشے سونا کی قیمت لکھ دے اور ڈیڑھ ماشے ملاوٹ کی جگہ اپنی مزدوری لگالے تو ایسا کرنے سے اس کی روزی حلال ہو جاۓ گی ؟شرعی راہ نمائی فرمادیں۔

جواب

1:شرعی اعتبار سے سونے چاندی کی خرید و فروخت میں لین دین،  نقد  اور ہاتھ در  ہاتھ ہونا ضروری ہے، یعنی ایک ہی مجلس میں قیمت کی رقم دینا اور سونا  چاندی کی قیمت وصول کرنا  ضروری ہے اور کسی بھی جانب سے ادھار، ربوا (سود) کے زمرے میں آتا ہے جو کہ  ناجائز وحرام ہے۔

2: دوکاندار کے لیے ایسا کرنا جائز نہیں ہے، کیوں کہ اس صورت میں سونے کی خریدوفروخت ادھار کے زمرے میں آجاتی ہے، جو کہ جائز نہیں ہے،البتہ اس کی جائز صورت یہ ہےکہ جس کے پاس پرانا سونا ہو  اس کاپرانا سونا خرید لیا جائے اور اسی وقت اس کو مکمل قیمت ادا کر دی جائےپھر دکاندار(سنار)   اس شخص سے نئے زیورات بنانے کا آرڈر لے لے اورباہمی رضامندی سے قیمت بھی طے کرلے چاہے تو بیعانہ لے لے،  بعد ازاں  اس کے زیورات تیار ہونے کے بعد اس سے نئے سونے کی قیمت وصول کر لی جائے اور دوسری صورت یہ ہے کہ سنار اس شخص سے پرانا زیور لے کر اسی زیورات سےنئے زیورات بنوانے کی اجرت طے کرلے اور نئے زیورات تیار ہونے کے بعد حسبِ معاہدہ اجرت لے کر زیورات اس کے حوالے کردے۔

3: مروجہ کرنسی نوٹ کی شرعی حیثیت ثمنِ خلقی (سونا، چاندی)کےقائم مقام کی ہے اور اسے ثمنِ عرفی بھی کہا جاتا ہے، لہذا کسی بھی ملک کی کرنسی کے ذریعے سونا چاندی کی خریداری کے وقت معاملہ کا نقد اور ہاتھ در ہاتھ ہونا ضروری ہے، ورنہ اُدھارکی صورت میں سود لازم آئے گا،البتہ  كرنسی نوٹ کے ذریعے سونا چاندی نقد خریدنے میں جنس مختلف ہونے کی وجہ سے تفاضل یعنی کمی زیادتی کے ساتھ تبادلہ کرنا جائز ہوگا،تاہم ادھار جائز نہیں،لہذا  نوٹوں کے ذریعہ سےنقد خریدے گئے سونے میں کمی زیادتی سود تو نہیں، البتہ جو مقدار سونے کی بتائی جا رہی ہو اس میں دیانت اور امانت داری کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، جان بوجھ کر سونا کم ظاہر کرنا دھوکہ ہوگاجو کہ غلط ہے، بہر حال محتاط تخمینہ لگانے پر حاصل شدہ نفع حلال ہوگا ، نیز اگر سونا زیادہ نکلے تو بیچنے والے کو اس کے بارے میں مطلع کرنا بھی ضروری ہے۔

4: صورتِ مسئولہ میں  اگر دکاندار  سونے کی نوعیت(کریٹ)متعین کر کے خریدار کو آگاہ کرے اور خریدار کو اسی نوعیت کا سونا دے تو یہ معاملہ شرعًا جائز ہوگا اور روزی بھی حلال ہوگی،  البتہ اگر دکاندار خریدار کے لئے ایک  سونے کی نوعیت(کریٹ) متعین کر ےاور  خریدار کو دوسری نوعیت کا سونا دے، تو پھر یہ معاملہ دھوکہ کے زمرے میں آجائے گا جو کہ جائز نہیں ہے، نیز اگر دکاندار خریدار کو اس بات سے آگاہ کرلے کہ میں ملاوٹ والے سونے کی قیمت بھی خالص سونے کے بھاؤ پرہی وصول کروں گا اور خریدار اس پر راضی ہوجائے تو ایسے کرنےسے بھی معاملہ جائز ہوجائے گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

''(ويشترط) عدم التأجيل والخيار و (التماثل) -أي التساوي وزنا (والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق) وهو شرط بقائه صحيحا على الصحيح (إن اتحد جنسا وإن) وصلية (اختلفا جودة وصياغة) لما مر في الربا (وإلا) بأن لم يتجانسا(شرط التقابض) لحرمة النساء.''

(کتاب البیوع، باب الصرف، ج:5، ص،258، ط:دار الفکر)

شرح المجلہ میں ہے:

''كل شيء تعومل استصناعه يصح فيه الاستصناع على الإطلاق.''

(کتاب البیوع، الفصل الرابع في بیان الاستصناع، المادۃ:389، ص:76، ط:كارخانه تجارت كتب)

مبسوطِ سرخسی میں ہے:

 ''وإنما يجب التقابض في الصرف بمقتضى اسم العقد، وبيع الفلوس بالدراهم ليس بصرف.''

(کتاب البیوع، باب بیع الفلوس، ج:14، ص:24، ط:دار المعرفه)

وفیه أیضاً:

''قال: - رحمه الله - وإن استأجر أجيرا بذهب، أو فضة يعمل له في فضة معلومة يصوغها صياغة معلومة، فهو جائز وكذلك الحلي، والآنية، وحلية السيف والمناطق وغيرها؛ لأنه استأجره لعمل معلوم ببدل معلوم، ۔۔۔۔۔۔۔وإن استأجره بدراهم ليموه له حرزا بقيراط ذهب؛ فهذا باطل إلا أن يقبض الدراهم، ويقبض ذلك القيراط، ثم يرده إليه، ويقول: موه به، وكذلك إن استأجره بذهب أكثر من ذلك؛ فإنه لا يجوز إلا أن يتقابضا؛ لأن العقد في الذهب صرف.''

(کتاب البیوع، باب الإجارة في الصياغة، ج:14، ص:48، ط:دار المعرفه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144510101362

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں