بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

12 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سونے کی خرید وفروخت کی صورتیں


سوال

مارکیٹ میں سونے کی خرید وفروخت کے مختلف طریقے رائج ہیں ،1)  بڑا سنار  دوسرےچھوٹے سنار  کو  ایک لونگ 12 کریٹ (48 رتی)  آدھی ملاوٹ کے ساتھ بیچتا ہے،لیکن اس کا کل وزن  چھوٹےسنار  کو نہیں بتاتا،اور اس  کو کہتا ہے کہ اگر آپ اس کو واپس کریں گے تو  آپ کو آدھی قیمت پر واپس ہوگی۔

2) بڑا سنار چھوٹےسنار  کو سونے کا کوئی پرزہ (لونگ) 50 فیصد ملاوٹ کے ساتھ فروخت کرتا ہے ،اور اسی پرزے میں نگینہ اور مینا بھی جڑا ہوتا ہے،جب فروخت کرتا ہے تو کل کا وزن کر کے اس میں نگینہ ،مینا اور ٹانکہ سب ہی سونے کے بھاؤ پر بیچتا ہے،اور چھوٹےسنار کو بڑا سنار پرزے کے کل وزن پر 30 فیصد کاٹ کے ساتھ فروخت کرتا ہے ،اور باقی 70 فیصد کے بدلے خالص سونا لیا جاتا ہے،جب کہ ملاوٹ 50 فیصد ہوتی ہے،اور بدلے میں بڑا سنار  چھوٹے سنار سے خالص سونا قسطوں میں  لیتا ہے،ایک ہی دفعہ ادائیگی نہیں کی جاتی ،اور قسطوں کی ترتیب یہ ہوتی ہےکہ، معاملہ کےوقت  تو بدلے میں سونا دینا طے کیا جاتا ہے ،لیکن ادائیگی رقم کی صورت میں ہوتی ہے،چھوٹا سنار بڑے سنار کو روزانہ کچھ ادائیگی کرتا ہے،اور پھر جس دن حساب مکمل کرنا ہوتا ہے اس دن قسطوں والی رقم کو جمع کر کے ،اسی دن کے سونے کی قیمت سے ادائیگی ہوتی ہے ،اگر قسطوں کے ذریعے ادائیگی مکمل ہوگئی ہے تو ٹھیک ورنہ باقی رقم کی ادائیگی کی جاتی ہے۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا یہ مروجہ صورتیں شرعاً جائز ہیں ؟ ان کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

جواب

صورت ِ مسئولہ میں سونے کی خرید وفروخت کی  جو پہلی صورت بیان کی گئی ہے ،کہ ایک سنار جب دوسرے سنار کو سونا فروخت کرتا ہے تو اس کا کل وزن نہیں بتاتا ،تو اس قسم کی خرید وفروخت شرعاً جائز نہیں ،کیوں کہ کسی بھی چیز کی خرید وفروخت ہو اس میں  اس شئی کا متعین ہونا ضروری ہے ،تاکہ جھگڑے سے بچا جاسکے ،اور بڑے سنار کا چھوٹے سنار کو یہ کہنا کہ اگر آپ یہ سونا واپس کریں گے تو آدھی  قیمت پر واپسی ہوگی  ،اس میں صرف بڑے سنار کا فائدہ ہے ،اور خرید وفروخت میں ایسی شرط لگانا جس سے  بیچنے والے یا خریدنے والے میں سے کسی ایک کا فائدہ ہو وہ خرید وفروخت بھی شرعاً جائز نہیں ۔

2) دوسری صورت میں بڑے سنار کا  غیر سونا(نگینہ،مینا اور ٹانکے وغیرہ )کو بھی سونا شمار کرکے بیچنا ،اور 50 فیصد ملاوٹ کو 30 فیصد کاٹ کر باقی 20 فیصد ملاوٹ کو بھی سونا شمار کرنا جائز نہیں ،اس لیے یہ دھوکہ دہی پر مبنی ہے ،جو کہ لڑائی کا سبب  اور ذریعہ ہے ،اور ہر ایسا عقد  جو لڑائی تک پہنچا دے وہ ناجائز ہے،اور بڑے سنار کا چھوٹے سنار کو ادھار پر سونا بیچنا بھی جائز نہیں اس لیے کہ سونے کی خرید وفروخت میں دونوں طرف سے معاملہ نقد اور ہاتھ در ہاتھ ہونا لازمی ہے، ورنہ اُدھارکی صورت میں سود لازم آتاہے۔

صحيح مسلم میں ہے:

"عن أبي هريرة: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من حمل علينا السلاح فليس منا، ومن غشنا فليس منا."

(كتاب الایمان ،باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم،99/1،ط:مکتبہ عیسیٰ البابی قاہرہ)

صحيح مسلم میں ہے:

"عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: التمر بالتمر، والحنطة بالحنطة، والشعير بالشعير، والملح بالملح، مثلا بمثل، يدا بيد، فمن زاد، أو استزاد، فقد أربى، إلا ما اختلفت ألوانه."

(کتاب المساقاۃ ،باب الصرف وبیع الذھب،1211/3،ط:مکتبہ عیسیٰ البابی قاہرہ)

بدائع الصنائع میں ہے:

"(ومنها) شرط لايقتضيه العقد وفيه منفعة للبائع أو للمشتري أو للمبيع إن كان من بني آدم كالرقيق وليس بملائم للعقد ولا مما جرى به التعامل بين الناس نحو ما إذا باع دارًا على أن يسكنها البائع شهرًا ثم يسلّمها إليه أو أرضًا عى أن يزرعها سنةً أو دابةً على أن يركبها شهرًا أو ثوبًا على أن يلبسه أسبوعًا أو على أن يقرضه المشتري قرضًا أو على أن يهب له هبةً أو يزوج ابنته منه أو يبيع منه كذا ونحو ذلك أو اشترى ثوبًا على أن يخيطه البائع قميصًا أو حنطةً على أن يطحنها أو ثمرةً على أن يجذها أو ربطةً قائمةً على الأرض على أن يجذها أو شيئًا له حمل ومؤنة على أن يحمله البائع إلى منزله ونحو ذلك؛ فالبيع في هذا كلّه فاسد؛ لأنّ زيادة منفعة مشروطة في البيع تكون ربا؛ لأنها زيادة لايقابلها عوض في عقد البيع وهو تفسير الربا."

(کتاب البیوع ،فصل فی شرائط الصحۃ،169/5،ط: دارالکتب العلمیۃ)

درمختار میں ہے:

"هو لغة الزيادة. وشرعا (بيع الثمن بالثمن) أي ما خلق للثمنية ومنه المصوغ (جنسا بجنس أو بغير جنس) كذهب بفضة (ويشترط) عدم التأجيل والخيار و (التماثل)أي التساوي وزنا (والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق."

(کتاب البیوع ، باب الصرف ،257/5،ط:ایچ ایم سعید)

فتاوٰی عالمگیریہ میں ہے:

"ولا يجوز بيع الذهب بالذهب ولا الفضة بالفضة إلا مثلا بمثل تبرا كان أو مصنوعا أو مضروبا."

(کتاب الصرف ،الباب الثانی فی احکام العقد،218/3،ط:مکتبہ ماجدیہ کوئٹہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310101558

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں