بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قربانی اور زکوٰۃ کے لیے نصاب


سوال

ایک شخص اپنی بیٹی کو شادی کے موقع پر سونا دینا چاہتا ہے مگر اتنا سونا دینا چاہتا ہے کہ اس لڑکی پر قربانی یا زکاۃ واجب نہ ہوجائے ،تو وہ کتنا  سونا دے ،اگر وہ دو تین تولہ سونا دیں تو کیا چاندی کے حساب سے اس پر قربانی یا زکاۃ واجب ہوگی ؟کیوں کہ سونے کے لحاظ سے تو نصاب پورا نہیں ہوتا ، کیا یہاں بھی چاندی کی قیمت کے حساب سے نصاب کا اعتبار ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ اگر کسی کی ملکیت میں صرف سونا ہو تو اس  کا نصاب ساڑھے سات تولے  ہے اور اگر صرف چاندی ہو تو  اس  کا نصاب ساڑھے باون تولے  ہے،  لیکن اگر کسی کی ملکیت میں ایک تولہ یا آدھا تولہ سونا ہو یعنی سونے کے نصاب سے کم ہو اور اس کے ساتھ کچھ چاندی یا نقدی ہو جن کی مجموعی قیمت ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ ہو تو وہ صاحبِ نصاب بن جائے گا، سال پورا ہونے پر اس پر بھی زکوٰۃ واجب ہوتی ہے۔

لہذا اگر ساڑھے سات تولہ سے کم سونا اس شخص کی بیٹی کی ملکیت میں ہو  اور اس کے ساتھ نقدی یا چاندی یا حوائجِ اصلیہ سے زائد سامان  نہ ہو تو زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی اور نہ ہی قربانی واجب ہوگی، البتہ اگر نصاب سے کم سونا، یا نصاب سے کم چاندی کے ساتھ اگر ضرورت سے زائد اتنا سامان بھی ہو کہ ان سب کی مجموعی مالیت ساڑھے باون تولے چاندی کے برابر ہو تو ایسی صورت میں زکوٰۃ تو واجب نہیں ہوگی، لیکن قربانی واجب ہوگی۔ اسی طرح وجوبِ قربانی میں یہی حکم رقم اور ضرورت سے زائد سامان کا بھی ہےکہ اگر  رقم اور ضرورت سے زائد سامان ، سب کی مجموعی مالیت چاندی کے نصاب کے برابر ہوجائے تب بھی قربانی واجب ہوگی۔ باقی زیرِ نظر مسئلہ میں نصاب سے کم سونا یا نصاب سے کم چاندی کے ساتھ ساتھ کچھ چاندی یا نقدی ہو جو ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت کے مساوی یا اس سے زیادہ ہو  تو پھر اس سےوہ صاحبِ نصاب بن جائے گی ، سال پورا ہونے  پر زکوٰ ۃ واجب ہوگی۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"فأما إذا كان له ذهب مفرد فلا شيء فيه حتى يبلغ عشرين مثقالا فإذا بلغ عشرين مثقالا ففيه نصف مثقال؛ لما روي في حديث عمرو بن حزم «والذهب ما لم يبلغ قيمته مائتي درهم فلا صدقة فيه فإذا بلغ قيمته مائتي درهم ففيه ربع العشر» وكان الدينار على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم مقومًا بعشرة دراهم.

وروي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال لعلي: «ليس عليك في الذهب زكاة ما لم يبلغ عشرين مثقالا فإذا بلغ عشرين مثقالا ففيه نصف مثقال» وسواء كان الذهب لواحد أو كان مشتركا بين اثنين أنه لا شيء على أحدهما ما لم يبلغ نصيب كل واحد منهما نصابا عندنا، خلافاً للشافعي ... و على هذا لو كان له مائة درهم وعشرة مثاقيل ذهب قيمتها مائة وأربعون درهما تضم باعتبار القيمة عند أبي حنيفة فتبلغ مائتين وأربعين درهمًا فتجب فيها ستة دراهم".

( بدائع الصنائع،کتاب الزکوٰۃ، 19،18/2، ط: دار الکتب العلمیہ)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"وهي واجبة على الحر المسلم المالك لمقدار النصاب فاضلا عن حوائجه الأصلية كذا في الاختيار شرح المختار، ولا يعتبر فيه وصف النماء ويتعلق بهذا النصاب وجوب الأضحية، ووجوب نفقة الأقارب هكذا في فتاوى قاضي خان."

(الفتاویٰ الہندیہ، کتاب الزکوٰۃ،الباب الثامن في صدقة الفطر، 191/1، ط: رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100444

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں