بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سونے کی نقدی کے بدلے ادھارخرید و فروخت


سوال

ہمارے یہاں بینک نے سونے بیچنے کی ایک سکیم نکالی ہے، وہ اس طرح کہ مثلاً آپ نے بینک کو 5000 روپے دیے سونا خریدنے کے لیے، لیکن بینک آپ کو فی الوقت سونا نہیں دے گا، بلکہ وہ آپ کے لیے سونا خریدے گا بھی نہیں، بلکہ ایک حساب لگائے گا کہ 5000 روپے میں اس وقت کے حساب سے کتنا سونا ہونا چاہیے، مثلاً آج کی قیمت کے حساب سے 5000 روپے میں ایک گرام ہوئے تو وہ میرے کھاتے میں 1 گرام سونا لکھ دے گا، پھر 8 سال بعد ایک گرام سونے کی جو قیمت ہوگی وہ مجھے دے دے گا، سوال یہ ہے کہ کیا ایسا معاملہ جائز ہے؟ اگر جائز ہے تو کیوں؟ اور نا جائز ہے تو کن کن وجوہات کی بنا پر؟ 

جواب

واضح رہے کہ سونے کی کرنسی کے بدلے خرید و فروخت "بیعِ صرف" کہلاتی ہے، جس کے شرعًا جائز ہونے کے لیے عوضین (فروخت کردہ چیز اور اس کی قیمت، دونوں) پر مجلسِ عقد میں قبضہ ضروری ہوتاہے، کسی ایک جانب سے ادھار جائز نہیں ہوتا، نیز اگر کسی چیز کی خرید و فروخت حقیقتًا مقصود نہ ہو، بلکہ کسی چیز کی موجودہ قیمت فرض کرکے اس کے عوض رقم وصول کی جائے اور کچھ عرصے بعد اس چیز کی اُس وقت موجودہ قیمت کو دیکھ کر رقم واپس کردی جائے، جس سے مقصود دونوں زمانوں میں اس چیز کی قیمت کے تفاوت کی بنیاد پر نفع یا نقصان ہو، یہ معاملہ بھی شرعاً جائز نہیں ہے، اگر مقصود بیع ہے تو حقیقتًا بیع کرنی ہوگی اور جانبین سے قبضہ مجلسِ عقد میں ضروری ہوگا، اور اگر بیع مقصود نہیں تو یہ قرض ہے، اور قرض جس چیز سے دیا جائے وہی چیز اتنی ہی مقدار میں واپس کرنا لازم ہوگا،  لہٰذا  مذکورہ طریقہ سے سونے کی خرید و فروخت کا معاملہ کرنا جائز نہیں ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205200292

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں