فاطمہ کے پاس 7 تولہ سونا ہے،1 چاندی کی انگوٹھی، 3000 روپے مہینہ ملتا ہے،اس میں سے کچھ جمع کرتی ہے، کپڑوں کے لیے، باقی خرچ ہوجاتا ہے۔کیا اس پر زکوۃ ہے؟ چوں کہ اس کے پاس زکوۃ ادا کرنے کے لیے پیسے نہیں ہوتے تو کیا وہ اپنی چاندی کی انگوٹھی بچی کے نام کردے اور استعمال بھی نہ کرے، اور جمع کیے ہوئے پیسے شوہر کے نام کردے کہ آپ اپنے پیسوں سے میرے کپڑے بنادیا کریں، کیا ایسا کرنا صحیح ہے؟
صورتِ مسئولہ میں فاطمہ پر زکات واجب ہے، اگر وہ فورًا نہیں دے سکتی تو زکات کی مقدار نوٹ کرلے، اور تھوڑے تھوڑے کرکے دے دیا کرے۔
اگر فاطمہ ، سوال میں مذکورہ صورت اختیار کرے، اور اپنی ملکیت میں صرف سونا رہنے دے، اور باقی تمام چیزیں ملکیت سے نکال دے تو پھر زکات واجب نہ ہوگی۔ البتہ جب وہ پیسے شوہر کو دے دے تو شوہر مالک بننے کے بعد اپنے لیے بھی خرچ کرسکتا ہے۔
بدائع الصنائع:
"فکمال النصاب مشروط وجوب الزکاۃ … و لکن هذا الشرط یعتبر في أول الحول وفي آخرہ لا في خلاله حتی لو انتقص النصاب في اثناء الحول، ثم کمل في آخرہ تجب الزکاۃ سواء کان من السوائم أو من الذهب والفضة أو مال التجارۃ."(ج2، ص99)
(درمختار مع الشامی: ۳/۳۳۴):
"و یضم الذهب إلی الفضة وعکسه بجامع الثمنیة قیمةً وقالا: بالأجزاء ... قوله: ویضمّ الخ أي عند الاجتماع، أمّا عند انفراد أحدهما فلاتعتبر القیمة إجماعاً ... الخ
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144203201379
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن