بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سونے ميں بيعِ سلم كا حكم


سوال

 کیا سونے میں بیع سلم جائز ہے یا نہیں؟ براہ کرم مدلل بیان فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ سونے میں بیع سلم جائز ہے یانہیں؟ اس مسئلہ کے جواز وعدمِ جواز کا مدار  کرنسی نوٹ کی شرعی حیثیت پر ہے کہ کرنسی نوٹ  سوانا چاندی کی طرح ثمن ہے یانہیں؟ اس سلسلے میں  جواہر الفتاوی (جلد نمبر1، صفحہ نمبر 416 تا 429، ط:اسلامی کتب خانہ)میں مفتی عبدالسلام رحمہ کا مقالہ  بعنوان "کرنسی کی شرعی حیثیت"  اور فتاوی بینات (ج:4، ص:100 تا 116، ط:بینات) میں بعنوان "نوٹ کی شرعی حیثیت اور اس کے متعلق شرعی احکام" کا ملاحظہ کیاجائے،جس کا خلاصہ یہ ہے کہ  موجودہ کرنسی اپنی مستقل حیثیت ہونے کی وجہ سے باقاعدہ سونے  چاندی کی طرح ثمن (زراصطلاحی)  ہے، اور جب ثمن کا تبادلہ ثمن سے ہو تو یہ بیعِ صرف کہلاتاہے، اور  بیع صرف میں مجلسِ عقد میں ہی جانبین سے قبضہ ضروری ہے، جبکہ بیع سلم میں جانبین پر قبضہ کا تحقق نہیں ہوتا،اس لیے سونے میں بیع سلم جائز نہیں ہے۔

اور موجودہ کرنسی کی مستقل  طور ثمن بننے کی وجہ یہ ہے کہ  ابتداء زمانہ  میں خرید وفروخت کے معاملہ میں سامان کا تبادلہ سامان سے کیا جاتا تھا، پھر سکّے کے ذریعے خرید وفروخت کا رواج شروع ہوا، پھر عام لوگ سونے چاندی کے سکّے صرافوں کے پاس امانت کے طور پر رکھ کر ان سے وثیقے اور اعتماد کے طور پر رسید وصول کرلیتے تھے، پھر اس کے بعد لوگوں نے انہیں رسیدوں پر خرید وفروخت کا کاروبار شروع کردیا، اس کے بعد یہی رسیدیں نوٹوں  کی شکل اختیار کرگئیں، پھر جب نوٹوں کو قانونی طور پر کرنسی کی حیثیت دی گئی تو اس وقت ان نوٹوں کے پیچھے سو فیصد سونا ہوتا تھا، پھر سونے کی شرح بھی کم ہوتی گئی یہاں تک کہ کم ہوتے ہوتے سونے کی شرح بالکل ختم ہی ہوگئی ، لہذا اب نوٹوں کے پیچھے کوئی سونا نہیں اور  نہ ہی نوٹ سونا چاندی کی رسید ہے،  بل کہ نوٹوں کی اپنی مستقل حیثیت ہونے کی وجہ سے یہ  باقاعدہ سونے  چاندی کی طرح ثمن (زراصطلاحی)  ہے ، لہذا  ثمن کی دو قسمیں ہوگئی ہيں جو مندرجہ ذیل  ہیں:

1:ثمن خلقی ، جیسے سونا، اور چاندی جو "حقیقی زر"  ہے۔

2: ثمن عرفی یا اصطلاحی، جیسے عام کرنسی/نوٹ جو" اصطلاحی زر " ہے۔

لہٰذا  مذکورہ تمہید سے یہ بات واضح ہوگئی کہ ثمن خلقی (یعنی سونا/ چاندی )  اور ثمن اصطلاحی (یعنی حکومت کی طرف سے مقرر کردہ کرنسی نوٹ) دونوں ربا سے متعلق تمام احکام میں یکساں ہيں، لہذا جیسےسونے اور چاندی کا آپس میں تبادلہ "بیع صرف"  کہلاتا ہے،اسی طرح سونے اور چاندی کا تبادلہ عام کرنسی سے بھی بیع صرف کہلاتا ہے، اور بیع صرف میں چوں کہ دونوں ثمن کا آپس میں قبضہ ضروری ہے، اور بیعِ سلم میں جانبین پر قبضہ نہیں ہوتاہے، اس لیے سونے میں بیع سلم جائز نہیں ہے۔

فتاوی مفتی محمود میں ہے:

"سوال:کیا فرماتے ہیں علماءدین متین کہ آج مثلاً سونے کا حاضر بھاؤ 600  روپیہ فی تولہ ہے، ایک سنار ہم سے 10 تولے سونا مانگتاہےایک ماہ کے ادھارپر، ہم اس سے کہتے ہیں کہ میں تو 640 روپے فی تولہ دوں گا، وہ کہتاہے کہ دے دو، رقم ایک ماہ میں ادا کردوں گا، ہم اس کو سونا دیتے ہیں، تو عرض یہ ہے کہ آج کے بھاؤ سے ہمیں  10 تولے سونے میں 400 روپے بچت ہوتی ہے، کیا یہ ہمارے لیے جائز ہےیا نہیں؟"

محمدیونس

جواب:

"یہ تو بیعِ صرف ہے، اس میں ادھار جائز نہیں"۔فقط واللہ اعلم

بندہ محمداسحاق، نائب مفتی مدرسہ قاسم العلوم ملتان

"بیعِ سابق صحیح نہیں ہے، فاسد ہے، اس میں جو نفع  ہواہےاسے خیرات کردیاجائے"۔فقط واللہ اعلم

الجواب صحیح، محمدعبداللہ

(ج:8، ص:450، ط:جمعیت پبلیکیسنز لاہور)

اور آپ کے مسائل اور ان کا حل میں ہے:

سوال:

"اگر کوئی شخص سونا یا چاندی گھر والوں کو پسند کرانے کے لیےلاتاہے اور پھر بعد میں دوسرے دن یا کچھ عرصہ کے بعد اس کی رقم بیچنے والے کو دیتاہے تو یہ خرید وفروخت درست ہے یانہیں؟اگر درست نہیں ہے تو کون سی صورت درست ہے؟ کیونکہ گھر والوں کو دکھائے بغیر یہ چیز خریدی نہیں جاتی ہے؟"

جواب:

"گھر والوں کو دکھانا جائز ہے، لیکن جب خریدنا ہو تو دونوں طرف سے نقد معاملہ کیا جائے، ادھار نہ کیا جائے، اس لیے گھروالوں کو دکھانے کے لیے جو چیز لے گیا تھا اس کو دکان دار کے پاس واپس لے آئے،  اس کے نقد دام  ادا کرکے وہ چیز لے جائے"۔

(ج:7، ص:58، ط:لدھیانوی)

الدرالمختار میں ہے:

"(وصح البيع بالفلوس النافقة) وإن لم تعين كالدراهم".

وفی حاشیتہ لابنِ عابدین:

"(قوله: وإن لم تعين) لأنها صارت أثمانا بالاصطلاح فجاز بها البيع ووجبت في الذمة كالنقدين، ولا تتعين وإن عينها كالنقد".

(کتاب البیوع، باب الصرف، ج:5، ص:270، ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"(قوله: لثمنيته حينئذ) أي حين إذا كان رائجا؛ لأنه بالاصطلاح صار أثمانا، فما دام ذلك الاصطلاح موجودا لا تبطل الثمنية لقيام المقتضي بحر، فلو هلك قبل القبض لا يبطل العقد فتح".

(کتاب البیوع، باب الصرف، ج:5، ص:267، ط:سعید)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"(هو بيع بعض الأثمان ببعض) كالذهب والفضة إذا بيع أحدهما بالآخر أي بيع ما من جنس الأثمان بعضها ببعض وإنما فسرناه به ولم نبقه على ظاهره ليدخل فيه بيع المصوغ بالمصوغ أو بالنقد فإن المصوغ بسبب ما اتصل به من الصنعة لم يبق ثمنا صريحا ولهذا يتعين في العقد ومع ذلك بيعه صرف ...شرائطه فأربعة، الأول قبض البدلين قبل الافتراق بالأبدان.

(قوله: فلو تجانسا شرط التماثل والتقابض) أي النقدان بأن بيع أحدهما بجنس الآخر فلا بد لصحته من التساوي وزنا ومن قبض البدلين قبل الافتراق".

(کتاب البیوع، باب الصرف، ج:6، ص:209، ط:دارالكتبة العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144402100536

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں