بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سونے کو قسطوں پر فروخت کرکے نفع حاصل کرنا


سوال

میں نے پانچ لاکھ روپے کی مالیت کا سونا (یعنی اتنا سونا جس کا مارکیٹ ریٹ پانچ لاکھ روپے ہے) ایک صرّاف پر چھ لاکھ روپے میں بیچ دیا ہے، صرّاف سے ثمن کی وصولی کی ترتیب یہ ہے کہ اصل رأس المال یعنی پانچ لاکھ روپے کی ادائیگی صرّاف ایک سال بعد کرے گا، اور نفع کا جو ایک لاکھ روپیہ ہے اس کی وصولی کی ترتیب  یہ ہے کہ صرّاف ابھی سے ہر ماہ تقریباً ساڑھے آٹھ ہزار روپے ادا کرتا رہے گا۔  آیا میرا اس طرح سونے کو بیچ کر نفع حاصل کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ اگر ناجائز ہے اس کے جواز کی کیا صورت ہوسکتی ہے ؟

جواب

  واضح رہے کہ   کرنسی نوٹ ثمنِ اصطلاحی  ہیں،اس لیے کرنسی نوٹ(مثلاً روپے ) کے بدلے  سونا یا چاندی کی خریدو فروخت   شرعاً "بیعِ صرف" ہے،     اس میں دونوں طرف سے نقد ادائیگی ضروری ہوتی ہے،   لہذا  جس طرح سونا چاندی کی خریدوفروخت میں ادھار ناجائز ہے، اسی طرح  روپے کے بدلے سونا چاندی کی خریدوفروخت میں  بھی ادھار کا معاملہ شرعاً جائز نہیں ہے  بلکہ سونے چاندی کے معاملات میں لین دین،  نقد  اور ہاتھوں ہاتھ ہونا ضروری ہے، یعنی ایک ہی مجلس میں قیمت کی رقم دینا اور سونا  چاندی وصول کرنا  ضروری ہے اور کسی بھی جانب سے ادھار، ربوا (سود) کے دائرے میں آنے کی بنا پر ناجائز وحرام ہے۔

لہٰذا صورت مسئولہ میں مذکورہ اُدھار کا  معاملہ شرعاً   جائز نہیں ہوا، اس کا نفع بھی حلال نہیں ہوگا، دونوں پر لازم ہے کہ اس معاملہ کو فسخ کر دیں،   البته اس سونے سے نفع کمانے کی جائز  صورت یہ ہوسکتی  ہے کہ  سائل  دکان دار سے شرکت (پاٹنرشپ) کا معاملہ کرلے  اور اس کے ساتھ کاروبار میں شریک ہوجائے  اور اس کےمنافع میں دونوں  فیصد کے اعتبار سے شریک ہوجائیں  ، اگر یہ مشکل ہو تو  سائل دکان دار  کو  سونا مضاربت کے طور پر دےدے  ،  اس کا طریقہ یہ ہے کہ  مثلاً سائل دکان دار سے یہ  کہہ دے کہ آپ اس سونے سے  الگ کاروبار کریں ،  اس سے جو بھی نفع ہوگا اس میں سے اتنا فیصد آپ  کا ہوگا اور اتنا فیصد میرا ہوگا،   اگر مضاربت میں نقصان ہو تو نقصان پہلے  والے نفع سے پورا کیا جائے گا، اگر  نقصان اس سے زیادہ ہوتو پھر  سائل کے سرمایہ سے کاٹا جائے گا، نیز اس صورت میں دكان دار كے ليے سائل كے  اس سونے کا اپنے  پہلے سے کاروبار میں لگے ہوئے سونے سے  الگ حساب رکھنا ہوگا، اور اس  مضاربت کی مدت  میں مذکورہ سونے سے  جس قدر نفع ہوگا اس میں سائل اور دکان دار  دونوں اپنے اپنے طے شدہ نفع کے تناسب سے شریک ہوجائیں گے۔

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

"(ويشترط) عدم التأجيل والخيار و (التماثل ) أي التساوي وزنا (والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق) وهو شرط بقائه صحيحا على الصحيح (إن اتحد جنسا وإن) وصلية (اختلفا جودة وصياغة) لما مر في الربا (وإلا) بأن لم يتجانسا (شرط التقابض) لحرمة النساء.

(قوله: بالبراجم) جمع برجمة بالضم: وهي مفاصل الأصابع ح عن جامع اللغة. (قوله: لا بالتخلية) أشار إلى أن التقييد بالبراجم للاحتراز عن التخلية، واشتراط القبض بالفعل لا خصوص البراجم، حتى لو وضعه له في كفه أو في جيبه صار قابضا.

(قوله: قبل الافتراق) أي افتراق المتعاقدين بأبدانهما، والتقييد بالعاقدين يعم المالكين والنائبين، وتقييد الفرقة بالأبدان يفيد عموم اعتبار المجلس  ."

(الدر مع الرد ،(5/ 257 - 259) كتاب البيوع، باب الصرف،ط: سعيد)

 فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144304100701

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں