بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سونے کی کمیٹی ڈالنے کا حکم


سوال

ہم 20 بندے ہر ماہ ایک ایک تولہ سونا کمیٹی جمع کرتے ہیں اور پھر مہینے کے آخر میں قرعہ اندازی کرکے جس کا نام نکل آئے وہ 20 تولہ جمع شدہ سونا اسی کو دیا جاتا ہے۔ یہ عمل ہر ماہ دہرایا جاتا ہے یہاں تک کے ہر ایک بندے کو 20 تولہ سونا مل جائے۔ جمع کرتے وقت ہر ایک بندے کا ایک تولہ سونا مقدار میں 24 کیرٹ کا پورا ہوتا ہے جس کو تولنے کے لیے ہم ایسی مشین کا استعمال کرتے ہیں جو کہ 10ملی گرام تک کا وزن بھی بالکل صحیح دیتی ہے۔ تو کیا سونے کی مذکورہ کمیٹی ڈالنا شرعاً جائز ہے؟ جب کہ اس پر جیولرز حضرات کا تعامل بھی ہو۔

جواب

کمیٹی (بیسی)کامروجہ طریقہ قرض کے لین دین کامعاملہ ہے جس کا مقصد باہمی تعاون وتناصرہے ۔یہ معاملہ مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ جائز ہے :

بی سی (کمیٹی) میں تمام شرکاء برابر رقم یاسوناجمع کرائیں، اور انہیں برابر رقم یاسونا دیا جائے اورتمام شرکاءاخیرتک شریک رہیں (ایسانہ ہوکہ جس کی کمیٹی نکلتی جائےوہ بقیہ اقساط سے بری الذمہ ہوتاجائے) اور بولی لگاکر فروخت نہ کی جائے تو اس طرح کی بی سی (کمیٹی) ڈالنا جائزہے۔

اگر اس میں غلط شرائط لگائی جائیں، مثلاً: کسی کو کم، کسی کو زیادہ دینے کی شرط یا بولی لگاکر فروخت کی جائے یا جس کی کمیٹی نکلتی جائے وہ بقیہ اقساط سے بری الذمہ قرار پائے تو یہ صورتیں جائز نہیں ،  بعض صورتیں سود  اور بعض جوے  اور سود کے زمرے میں داخل ہوں گی۔

اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ ہر شریک کو ہر وقت بطورِ قرض دی ہوئی اپنی رقم  یاسوناواپس لینے کے مطالبہ کا پورا حق ہو، اس پر جبر نہ ہو۔

نیز تمام شرکاء  کی باہمی رضامندی سے اگر ابتداءً یہ طے ہوجائے کہ پہلی کمیٹی منتظم لے گا تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔

 لہذاصورتِ مسئولہ  میں مذکورہ طریقہ  پر سونے کی کمیٹی ڈالنا شرعا جائز ہے۔البتہ سونے کی کمیٹی  رکھتے وقت  انتہائی  احتیاط  اورسونے کے معیار کےا یک جیسے ہونے کے بارے میں مکمل اطمینان  ضروری ہے،تاکہ  کمی  بیشی  اور ربو ا کا ادنیٰ شبہ بھی لازم  نہ آئے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: کل قرض جر نفعاً فهو  حرام) أی اذا کان مشروطاً."

(ج:۵،ص:۱۶۶،ط:سعید) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405101245

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں