بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سونے کی بعض قیمت نقد ادا کی اور بعض بعد میں دینے کا وعدہ کیا ،اس کا حکم


سوال

 میری بیوی نے آج سے چار سال پہلے سات تولہ سونا ایک سنار، جو کہ پڑوسی بھی ہے ،کو بیچا ، اس وقت سونے کی قیمت چوالیس ہزار روپے تھی اورسنہار نے اس وقت 3  تولے سونے کی قیمت ادا کر دی تھی، جب کہ باقی آدھی رقم دوسرے دن ادا کرنے کا وعدہ کیا ، چناں چہ دوسرے دن میری بیوی کی طبیعت خراب ہوگئی اور وہ طبیعت کی ناسازی طول پکڑتے پکڑتے ایک لمبے عرصے کے لیے ہسپتال میں داخل ہوئی اور بیماری بھی یاد داشت اور دماغ کے متعلق  تھی، جس کی وجہ سے وہ یاد داشت کھو بیٹھی تھی اور کچھ یاد نہیں رہا ، سنار صاحب نے بھی جو کہ پڑوسی بھی ہیں خاموشی سادھ لی تھی اور ہمارے گھر والوں کو بھی نہیں بتایا کہ میں نے ان کے پیسے دینے ہیں . بیوی کو صحت یاب ہونے کے تقریبا ایک سال بعد یاد آیا کہ میں نے اتنا سونا فلاں سنار کو بیچا ہے، آدھی رقم وصول ہے اور آدھی باقی ہے ، گھر والوں نے سنار سے مطالبہ کیا تو اس نے کہا اب تو سونے کی قیمت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے اور میں وہی قیمت ادا کروں گا جو پہلے تھی، لیکن اس کے بعد بھی چار سال ہو چکے ہیں اس نے پیسہ ادا نہیں کیا اور نہ ہم نے زیادہ مصروفیات اور مسئلہ معلوم نہ ہونے کی وجہ سے سختی سے کبھی مطالبہ کیا، اسی طرح کرتے کرتے چار سال گزر گئے ہیں اور آج سونے کی قیمت دو لاکھ روپوں سے اوپر ہے ۔

اب سوال یہ ہے کہ ہمیں سونے کی قیمت موجودہ وقت کی قیمت کا مطالبہ کرنا چاہیے یا چار سال پہلے والی قیمت کی حساب سے رقم لینی چاہیے ؟

جواب

واضح رہے کہ نقدی ،سونا ،چاندی کی خرید و فروخت  بیع صرف کہلاتی ہے ،جس کی شرائط میں سے ہے  کہ مبیع اور ثمن دونوں پر  مجلس عقد ہی میں قبضہ کیا جائے اور اگر مجلس میں قبضہ نہ کیا جائے تو عقد فاسدہو جاتا ہے ، لہذا  صورتِ مسئولہ میں 7 تولہ  سونا میں سے   سنار نے 3 تولہ سونے کی رقم نقد  ادا کی تو 3 تولہ سونا میں معاملہ درست ہوگیا  اور بقیہ 4 تولہ  میں معاملہ فاسد ہو گیا  اور سنار پر لازم ہے کہ سائل کی بیوی کو 4 تولہ سونا   یا اس کی موجودہ قیمت واپس کرے۔

صحیح مسلم میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:  الذهب بالذهب، والفضة بالفضة، والبر بالبر، والشعير بالشعير، والتمر بالتمر، والملح بالملح، مثلا بمثل، سواء بسواء، يدا بيد، فإذا اختلفت هذه الأصناف، فبيعوا كيف شئتم، إذا كان يدا بيد."

(‌‌كتاب البيوع،‌‌باب الصرف وبيع الذهب بالورق نقدا،ج5،ص44،رقم:1587،ط:دار الطباعة العامرة)

عالمگیری میں ہے:

"(وبيانه) في مسألة ذكرها محمد - رحمه الله تعالى - في الجامع اشترى إبريق فضة بدينارين وقبض الإبريق ونقد دينارا واحدا ثم تفرقا قبل أن ينقد الدينار الآخر فسد البيع في نصف الإبريق ولا يتعدى الفساد إلى النصف الآخر."

(كتاب الصرف،الباب الأول،ج3،ص218،ط:دار الفكر)

رد المحتار میں ہے:

"‌حكم ‌البيع ‌الفاسد أنه يملك بالقبض ويجب رده لو قائما ورد مثله أو قيمته لو مستهلكا."

(کتاب البیوع،‌‌باب الربا،ج5،ص169،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503102658

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں