بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

سونے کی بیع پیسوں کے بدلے ادھار کا حکم


سوال

سونے کی بیع پیسوں کے بدلے ادھار پر جائز ہے؟ کیا مروجہ کرنسی نوٹ سونے کے حکم میں ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ آج کل نوٹوں کی حیثیت وہی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانہ میں سونے اور چاندی کی کرنسی کی  ہوا کرتی تھی، اور سونے اور چاندی کی کرنسی کے جو احکام  ہیں وہی احکام نوٹوں کے بھی ہیں، کیونکہ  ابتداء زمانہ  میں خرید وفروخت کے معاملہ میں سامان کا تبادلہ سامان سے کیا جاتا تھا، پھر سکّے کے ذریعے خرید وفروخت کا رواج شروع ہوا، پھر عام لوگ سونے چاندی کے سکّے صرافوں کے پاس امانت کے طور پر رکھ کر ان سے وثیقے اور اعتماد کے طو ر پر رسید وصول کرلیتے تھے، پھر اس کے بعد لوگوں نے انہیں رسیدوں پر خرید وفروخت کا کاروبار شروع کردیا، اس کے بعد یہی رسیدیں نوٹوں  کی شکل اختیار کرگئیں، پھر جب نوٹوں کو قانونی طور پر کرنسی کی حیثیت دی گئی تو اس وقت ان نوٹوں کے پیچھے سو فیصد سونا ہوتا تھا، پھر سونے کی شرح بھی کم ہوتی گئی یہاں تک کہ کم ہوتے ہوتے سونے کی شرح بالکل ختم ہی ہوگئی ، لہذا اب نوٹوں کے پیچھے کوئی سونا نہیں اور  نہ ہی نوٹ سونا چاندی کی رسید ہے،  بل کہ نوٹوں کی اپنی مستقل حیثیت ہونے کی وجہ سے یہ  باقاعدہ سونے  چاندی کی طرح ثمن (زراصطلاحی)  ہے ، لہذا  ثمن کی دو قسمیں ہوگئی هيں جو مندرجہ ذیل  ہیں:

1:ثمن خلقی ، جیسے سونا، اور چاندی جو "حقیقی زر"  ہے۔

2: ثمن عرفی یا اصطلاحی، جیسے عام کرنسی/نوٹ جو" اصطلاحی زر " ہے۔

لہٰذا  مذکورہ تمہید سے یہ بات واضح ہوگئی کہ ثمن خلقی (یعنی سونا/ چاندی )  اور ثمن اصطلاحی (یعنی حکومت کی طرف سے مقرر کردہ کرنسی نوٹ) دونوں ربا سے متعلق تمام احکام میں یکساں هيں، لہذا جیسےسونے اور چاندی کا آپس میں تبادلہ "بیع صرف"  کہلاتا ہے،اسی طرح سونے اور چاندی کا تبادلہ عام کرنسی سے بھی بیع صرف کہلاتا ہے، اور بیع صرف میں چوں کہ دونوں ثمن کا آپس میں قبضہ ضروری ہے؛ لہٰذا سونے/ چاندی اور کرنسی نوٹوں کے تبادلہ میں بھی قبضہ ضروری ہے، حاصل یہ ہے کہ سونے/ چاندی کو نوٹوں کے بدلے بیع صرف ہونے کی وجہ سے ادھار سے فروخت کرنا جائز نہیں ہے۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"(هو بيع بعض الأثمان ببعض) كالذهب والفضة إذا بيع أحدهما بالآخر أي بيع ما من جنس الأثمان بعضها ببعض وإنما فسرناه به ولم نبقه على ظاهره ليدخل فيه بيع المصوغ بالمصوغ أو بالنقد فإن المصوغ بسبب ما اتصل به من الصنعة لم يبق ثمنا صريحا ولهذا يتعين في العقد ومع ذلك بيعه صرف ...شرائطه فأربعة، الأول قبض البدلين قبل الافتراق بالأبدان.

(قوله: فلو تجانسا شرط التماثل والتقابض) أي النقدان بأن بيع أحدهما بجنس الآخر فلا بد لصحته من التساوي وزنا ومن قبض البدلين قبل الافتراق".

(باب الصرف، ج:6، ص:209، ط:دارالكتبة العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144401101828

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں