بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سونے کے کاروبار میں پالش/ چھیجٹ (Wastage) کی مد میں متعین رقم لینا


سوال

 سونے کے کاروبار میں مروجہ طریقہ کار ایسا ہے کہ سونے کا زیور بیچتے وقت بل میں پالش کے نام پر سونے کی ایک مقدار اور بنوائی کی قیمت گاہک سے سونے کے زیور کی مقدار سے زائد وصول کی جاتی ہے۔ سونے کی زائد مقدار کو کاٹ یا چھج کا نام دیا جاتا ہے جو کہ زرگر اور بنانے والے کے درمیان بلحاظ فیصد وزن طے شدہ ہوتی ہے۔ اور اس کی رقم زیور خریدنے والے سے وصول ہوتی ہے، یہ مقدار 600 ملی گرام فی تولہ اوسطًا ہوتی ہے۔ گاہک کو دونوں چیزیں الگ سے بتا کر زائد رقم وصول کی جاتی ہے۔ ایسی ترتیب میں کاروبار کرنا اور ایسے حاصل ہونے والی رقم کو منافع سمجھنا جائز ہے؟

نیز ایسے کاروبار میں بطور تیسری پارٹی انویسٹ کرنا جائز ہے؟ جب کہ انویسٹمنٹ فریقین کے درمیان طے شدہ رقم یا سونے کی مقدار کی صورت میں طے شدہ وقت کے لیے ہو۔ انویسٹ کی جانے والی رقم یا سونا انویسٹ کرنے والے کی مرضی کے زیور کی کیٹگری میں ہوتی ہے۔ مطلب کسی ایک دو یا زائد قسم کے زیور میں جیسے انگوٹھی، ٹاپس ہار وغیرہ۔ حاصل ہونے والے منافع کا 25 فیصد متعلقہ کیٹگری کا سونا فروخت ہونے کی صورت میں انویسٹر کی رقم کی فیصدی کے لحاظ سے انویسٹر کو بھیجا جاتا ہے۔ انویسٹر کو ہر ماہ منافع اسی چیز میں ادا ہوتا ہے جس میں انویسٹمنٹ ہو۔ مطلب سونے یا رقم میں۔ طے شدہ وقت ختم ہونے پر انویسٹر کو اس کا انویسٹ کیا گیا سونا یا رقم پوری پوری واپس کر دی جاتی ہے۔

جواب

      1-  سونے کا زیور بناتے وقت مختلف مرحلوں میں سونے کے کچھ نہ کچھ ذرات ضائع ہوتے ہیں، جسے اردو میں  ”چھیجت“  ہے،  انگریزی میں "Wastage" اور عربی میں "ضیاع" کہتے ہیں، اور عام مارکیٹ میں اس کو  ”پالش“ کا نام دیا جاتا ہے  اور  زیور بنانے کے عمل میں یہ کم اور زیادہ ہوسکتا ہے،   زیور کی خریداری پر سونار کا گاہک سے  اس  کو لینے  کا حکم یہ ہے:

       سونے کا ہر زیور فروخت کرتے وقت گاہک سے فی تولہ پر مقرر کردہ  ”چھیجت“ لینا جائز نہیں ہے، اس لیے  اگر زیور بنانے کے لیے سونا  گاہک نے خود لاکر دیا ہے اور وہ دکان دار کو بنوانے کے لیے دے رہا ہے تو اس صورت میں یہ   ”اجارہ“ کا معاملہ ہے، اس میں جو ”چھیجت“  لگے گی وہ گاہک ہی کی ذمہ داری ہوگی، چاہے کم ہو یا زیادہ ہو، اور دکان دار  مزدور ہے، بنانے والا ہے، اس کو اپنے کام کی اجرت ملے گی،  اس صورت میں ”چھیجت“ کو مزدوری کا جز نہیں بنایا جاسکتا، کیوں کہ اس کی مقدار مجہول ہوتی ہے۔

        اور اگر سونا دکان دار کا  ہو تو  اس صورت میں اگر وہ گاہک کو سونے کی قیمت، مزدوری اور ”چھیجت“ کی متعین رقم لگاکر بل بناکر دے رہا ہے تو اگر   ”چھیجت“ کی اتنی ہی قیمت لکھی ہے جتنی ”چھیجت“ بنواتے وقت آئی ہے تب تو یہ جائز ہے،  لیکن اگر ایک مقرر کردہ ”چھیجت“ بل میں لکھی ہے، حال آں  کہ  وہ اس سے کم لگی ہو تو  جھوٹ اور دھوکا دہی ہوگی جو کہ جائز نہیں ہے، اس صورت میں بل میں یہ سب تفصیل لکھے بغیر مطلقًا اس زیور کی جو قیمت بنتی ہے وہ ہی گاہک کو بتاکر بیچا جائے تو یہ جائز ہوگا۔

       2- اگر مذکورہ  تفصیل کے مطابق انویسٹمنٹ کی جائے اور سونے کے کاروبار میں دیگر شرعی پہلوؤں کی رعایت کی جائے تو اس کاروبار میں انویسٹ کرنا جائز ہوگا، لیکن فریقین میں نفع  کا  فیصد متعین ہونا ضروری ہوگا، اگر انویسٹ میں اصل سرمایہ کا  فیصد   طے کیا جائے تو یہ صورت جائز نہیں ہوگی۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

’’ومن شرائط الإجارة ... ومنها أن تكون الأجرة معلومة. ومنها أن لا تكون الأجرة منفعة هي من جنس المعقود عليه كإجارة السكنى بالسكنى والخدمة بالخدمة“.

(4/ 411،  کتاب الاجارۃ، الباب الأول تفسير الإجارة وركنها وألفاظها وشرائطها، ط: رشیدیہ)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"(ومنها) : أن يكون الربح جزءًا شائعًا في الجملة، لا معينًا، فإن عينا عشرةً، أو مائةً، أو نحو ذلك كانت الشركة فاسدةً؛ لأن العقد يقتضي تحقق الشركة في الربح والتعيين يقطع الشركة لجواز أن لايحصل من الربح إلا القدر المعين لأحدهما، فلايتحقق الشركة في الربح".

(6/ 59، کتاب الشرکة، فصل في بيان شرائط جواز أنواع الشركة، ط: سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144204200250

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں