بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سونے کے بدلہ سونے کی خرید و فروخت کا حکم


سوال

میں اکثر اپنے پرانے سونے کے بدلے سونا خریدتی  اور بدلواتی ہوں ،مزید پیسے بھی  کبھی کبھار  مجھے دینے پڑتے ہیں ، مجھے کچھ لوگوں نے کہا کہ اس طرح سے سونے کے بدلے سونا خریدنا شرعا حرام ہے ؟ کیا یہ بات درست ہے ، تفصیلی جواب عنایت فرمائیں، جو ناجائز طریقہ ہے وہ کیا ہے ؟ اور جائز کس طرح سے ہوگا ؟

جواب

واضح رہے کہ سونے کے بدلے جب سونے کی خرید و فروخت کی جائے تو  دونوں کے سونے کا وزن  برابر ہونا اور معاملہ  ہاتھ در ہاتھ ہونا ضروری ہے، اگر ان دونوں ( برابری اور ہاتھ در ہاتھ )میں سے کوئی ایک  چیز بھی نہیں پائی جائے گی تو معاملہ سود ی  ہونے کی وجہ سے نا جائز اور حرام ہوجائے گا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر سائلہ سونے کے بدلہ میں برابر وزن کا سونا خریدتی ہے یا اگر زیادہ وزن کا سونا خریدتی ہے اور اس کے بدلہ میں زائد کے برابر سونا یا نقدی  ادا کرتی ہے تومعاملہ درست ہے اور اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ اگر سائلہ زیادہ وزن کے سونے کے بدلہ کم وزن  کاسونا خریدتی ہے یا کم وزن کے بدلہ زیادہ وزن کا سونا خریدتی ہے اور کوئی نقدی بھی ساتھ ادا نہیں کرتی یا معاملہ ہاتھ در ہاتھ نہیں کرتی تو پھر سائلہ کا اس طرح معاملہ کرنا شرعا درست نہیں ہے، نیز یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ سونے کی خرید و فروخت کے معاملہ میں وزن میں برابری کی شرط پر اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ ایک طرف  خالص سونا اور دوسری طرف  کچھ ملاوٹ والا سونا  ہے بلکہ اس صورت میں بھی برابری ضروری ہوگی۔ 

عام طور پر دوکان داروں کا دستور یہ ہے کہ پرانا سونے کے بدلے میں نیاسونا لیں تو پرانا سونا زیادہ لیتے ہیں اور نیا سونا کم دیتے ہیں ، یہ صورت نا جائز ہے۔اس کی جائز صورت یہ ہے کہ پرانا سونا نقد پیسے کے عوض  فروخت کردے اور پیسے نقد وصول کرلے پھر اس کے بعد نقد پیسے کے عوض نیا سونا خرید لے ، پھر وزن کا برابر ہونا لازم نہیں ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الدراهم والدنانير لا تتعينان في عقود المعاوضات عندنا ولا يجوز بيع الذهب بالذهب ولا الفضة بالفضة إلا مثلا بمثل تبرا كان أو مصنوعا أو مضروبا ولو بيع شيء من ذلك بجنسه ولم يعرفا وزنهما أو عرفا وزن أحدهما دون الآخر أو عرف أحد المتصارفين دون الآخر ثم تفرقا ثم وزنا وكانا سواء فالبيع فاسد. فأما إذا وزنا في المجلس قبل الافتراق وكانا سواء جاز البيع استحسانا كذا في الحاوي."

(کتاب الصرف ، باب ثانی ج نمبر ۳ ص نمبر ۲۱۸، دار الفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہےْْ:

"وإذا كان الغالب على الدراهم الفضة فهي فضة، وإن كان الغالب غلى الدنانير الذهب فهي ذهب ويعتبر فيهما من تحريم التفاضل ما يعتبر في الجياد حتى لا يجوز بيع الخالصة بها ولا بيع بعضها ببعض إلا متساويا في الوزن وكذا لا يجوز استقراضها إلا وزنا لا عددا، وإن كان الغالب عليهما الغش فليسا في حكم الدراهم والدنانير وكانا في حكم العروض."

(کتاب الصرف ، باب ثانی ج نمبر ۳ ص نمبر ۲۱۹، دار الفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہےْْ:

"ولو اشترى دينارا ودرهمين بدرهمين ودينارين فهو جائز ويكون الدينار بالدرهمين من ذلك الجانب والديناران بالدرهمين من هذا الجانب كذا في الحاوي."

(کتاب الصرف ، باب ثانی ج نمبر ۳ ص نمبر ۲۱۹، دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100459

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں