ایک شخص کسی دکاندار کے کہنے پر زیورات بناتا ہےاور اجرت میں تھوڑے پیسے اور سونے کے زیور بنانے پر سونا لیتا ہے، تو حرام ہے یا حلال ہے؟ اگر حرام ہے تو اس کے جائز ہونے کی صورت کیاہے؟
صورتِ مسئولہ میں زیورات بنانے والے کے لیےسونے کے زیورات بنانے کی اجرت میں متعین رقم لینا تو جائز ہے، لیکن اگر اجرت میں سونا دینے کے بابت یہ طے ہو کہ جس سونے کے زیورات بنانے ہیں، اسی میں سے ایک گرام سونامثلاً اجرت دیا جائے گا، تو یہ جائز نہیں اور اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اجرت میں متعین سونا مطلقاً طے کیا جائے، اگر چہ بعد میں دیے گئے سونے ہی سے بچا ہو ا سونااجرت میں دیا جائے۔
فتاوی رحیمیہ میں ہے:
زید سونے چاندی کے زیوردھونے اور پالش کرنے کا کام کرتا ہے، یعنی سنار سونے کا زیور بنا کر زید کے حوالے کرتا ہے اور زید اس کو گرم کر کے پالش و غیرہ کر کے اس کے اندر چمک اور صفائی پیدا کرتا ہے لیکن اجرت میں رو پیه یا پیسے نہیں لیتا، بلکہ اسی سونے کے زیور میں سے کچھ سونا نکال کر لیتا ہے، اور یہ سنار طے کرتا ہے کہ اتنا سونا نکال لینا مثلاً سو ۱۰۰ گرم کا زیور سنار لے کر آیا اور کہا کہ اس کو دھو دو ، زید نے کہا کہ ایک گرام سونا اس کی دھلائی ہوگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ
”حدیث میں قفیز الطحان سے منع کیا گیا ہے قفیز الطحان یہ ہے کہ کسی کو گندم پیسنے کےلیے دیے جائیں اور اجرت یہ طے کی جائے کہ اس گندم کے آٹے میں سے ایک قفیز (مثلا ایک کلو ) آٹا تم کو ملے گا، قفیزالطحان کی حدیث میں ممانعت ہے۔
لہذ ا صورت مسئولہ میں اجارہ صحیح نہ ہو گا، صحیح ہونے کی صورت یہ ہے کہ اجرت میں روپیہ تعین کرے، اور اگر سونا ہی متعین کرنا ہو تو مطلقا سونا متعین کرے اور جتنا متعین کیا ہے، وہ پورا ادا کیا جائے۔۔۔۔الخ۔“
(کتاب الاجارہ، ج: 9، ص: 305، ط: دارالاشاعت)
فتاوی شامی میں ہے:
"(ولو) (دفع غزلا لآخر لينسجه له بنصفه) أي بنصف الغزل (أو استأجر بغلا ليحمل طعامه ببعضه أو ثورا ليطحن بره ببعض دقيقه) فسدت في الكل؛ لأنه استأجره بجزء من عمله، والأصل في ذلك نهيه صلى الله عليه وسلم عن قفيز الطحان وقدمناه في بيع الوفاء.
والحيلة أن يفرز الأجر أولا أو يسمي قفيزا بلا تعيين ثم يعطيه قفيزا منه فيجوز."
(كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، مطلب في الإستئجار على المعاصي، ج: 6، ص: 57، ط: سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144607101276
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن